(تحریر/آغاخالد)
آج میں نےبطورخاص جیو اےآروائی 24 نیوز سماء اوردنیانیوز کی رات 9 اور صبح 8 بجےکی خبریں دیکہیں سوائےچھوٹی موٹی کسی خبرکے کسی چینل میں بلوچستان میں اتنےبڑےانسانی المیہ کی کوئی ایک لائیں کی خبرنہیں تھی یہ ہماری صحافی برادری کوکیاہوگیاہے پالیسی میٹر مالکان کےہاتھ سہیں مگروہ واقعاتی یاحادثاتی رپورٹنگ پرقدغن تونہیں لگاتے
ان کامفاد صرف سیاسی خبروں تک محدود ہوتاہےسیاست اور ملکی حالات کی اہمیت اپنی جگہ مگر ملک کے جعغرافیائی اعتبارسےسب سےبڑے اورپس ماندہ صوبےمیں مون سون کی بارشوں نےقیامت ڈھادی ہے 200 سے زائد افراد ہلاک اورڈیڑھ سوہنوزلاپتہ ہیں جبکہ ایک کروڑ لوگ سیلابوں اورپہاڑوں سےگرنےوالےتیزرفتار پانی کے ریلوں سےمتاثرہوئےہیں 50
ہزارگھریاتوبلکل بہ گئے یاناقابل رہائش ہوچکے ندی نالوں پربنے 12 بڑے چھوٹے پل اور 50 سےزائد بند بہ گئےہیں برساتوں کی تباہی ہنوز جاری ہے رابطہ سڑکیں بہ چکی ہیں جس سے متاثرین کومحفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی میں شدیدمشکلات کاسامناہے کیونکہ ندی نالے بپھرے ہوئےہیں اتنےبڑے انسانی المیہ کوتمام چینلزاورقومی اخبارت یکسرنظرانداز کرہےہیں
جس سے پہلےسےناراض بلوچوں میں غصہ نفرت میں بدل رہاہے اور وہ سمجھ رہےہیں کہ پاکستان کی دیگرقومتیں اور حکومت انہیں انسان یااپنانہیں سمجہ تیں انہیں مصیبت کی اس گھڑی میں تنہاچھوڑ دیاگیاہےاداروں کی ناراضگی کےخوف میں مبتلاء بلوچستان کامقامی میڈیااپنے محدود وسائل کےساتھ ان مسائیل کی نشاندہی کرہاہے مگر ان کی کمزورآواز وفاق یاطاقت کے مراکز کوجہنجوڑنےمیں ناکام رہی ہے شایدیہی وجہ ہے ہمارے میڈیاکی آج کی سرخی عدالت عظمی کےفیصلہ پرقوم کےغصہ قومی اسمبلی کی کاروائی اورعمران خان کاردعمل ہے بلوچ ایک مضبوط اعصاب کی صحت مندقوم ہےجواتنی بڑی قدرتی آفت کوسہ رہی ہےاور اگراس کی جگہ کوئی شہری بابو ہوتےتو شورشرابہ اپنی جگہ انسانی اموات کاتخمینہ بھی ناقابل بیان ہوتااورپھرادارں کی پھرتیاں بھی دیکھنےسےتعلق رکھتیں پورے صوبے کے تباہ کن حالات میں یہ چھوٹاسامحض ایک واقعہ دل دہلادینے کوکافی ہےخداکرے کےہماری حکومتیں اور ادارے جاگ جائیں
۔۔