قومی احتساب بیورو کراچی نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی گاڑیوں، ٹرک،سیوریج کی گاڑیوں کے پیٹرول و ڈیزل کے اخراجات میں سنگین بے ضابطگیوں کی اطلاع پر افسران کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے جبکہ نیب نے مختلف پروجیکٹ کی ملنے والی گاڑیوں اور اس پر پیڑول و ڈیز ل کی مد میں آنے والے اخرجات کی تفصیلات طلب کر لی۔پروجیکٹ کی بڑی گاڑیاں غائب ہیں۔ان کے اعداد و شمار اور اس کے اخراجات ادارہ کے پاس موجود نہیں ہیں، یہ گاڑیاں سندھ حکومت کے بعض افسران کے ساتھ سابق وزرا اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔واٹر کمیشن کے چیئرمین بھی ایک گاڑی اپنے ہمراہ لے گئے تھے اور اب تک واپس نہیں کی ہے،جبکہ ادارے میں افسران نے ناجائز اختیارات کا استعمال، فنڈز کی اضافی ادائیگی،سرکاری اختیارات کا غلط استعمال عروج پر ہے۔من پسند افسران کے ساتھ لفافہ صحافیوں کے علاوہ بعض ملازمین کی کھڑی گاڑیوں پر بھی لاکھوں روپے کے پیٹرول فری ملنے کی تصدیق ہونے پر ادارہ میں ہلچل مچ گئی ہے۔مصدقہ ذراائع کے مطابق نیب کراچی کا کیس نمبر NABK20220103260576/IW-1/CO-B/NAB(K)2022/2320 بتاریخ 15 اپریل 2022درج کر کے مینجنگ ڈائریکٹر واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سے تفصیلات طلب کرکے پہلی بار ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا گیا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر انوسٹی گیشن ونگ صدیق اللہ جان کے دستخط سے جاری ہونے والے خط میں تمام گاڑیوں جنریٹرز کی پیٹرول و ڈیزل کے اخراجات کا جواب طلب کرلیا ہے۔ایڈیشل ڈائریکٹر امداد علی پلیجو کو کیس کا تحقیقاتی افیسر نامزد کیا گیا ہے۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں چھوٹی بڑی 489 گاڑیاں،84سیورکلینگ گاڑیاں،40 ٹرک ساتھ دو درجن جنرٹرز میں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔نیب کراچی نے ان گاڑیوں میں ہونے والی ماہانہ و سالانہ پیٹرول و ڈیزل کے اخراجات کی تفصیلات مانگی ہیں۔واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں پیٹرول و ڈیزل کی مد میں ماہانہ 14/15کروڑ روپے،اور دو ارب روپے سالانہ خرچ کیا جاتا ہے،جس کے باوجود واٹر بورڈ میں پیڑول ڈیزل کی فراہمی کا کوئی نظام واضح نہیں۔سندھ حکومت کے نظام کے برخلاف افسران کو زائد مقدار میں پیٹرول فراہم کیا جارہا ہے۔بورڈ کے ایک چیئرمین کے علاوہ کئی وزراء بھی واٹر بورڈ سے پیٹرول وصول کررہے ہیں۔سبکدوش ہونے والے ایک وائس چیئرمین ساجد جوکھیو کو بھی پیٹرول کی فراہمی جاری ہے۔کئی افسران نے ایک سے زائد گاڑیوں پر قبضہ کررکھا ہے۔افسران گاڑیوں میں 200، 250،300،350،400اور450 لیٹر روزانہ کی بنیاد پر موج کررہے ہیں اور موٹر سائیکل پر بھی 50 لیٹر سے ڈیڑھ سو لیٹر پیٹرول جاری کیے جاتے ہیں۔ افسران پر دفتر میں کام کرنے کے باوجود زائد پیٹرول وصول کرنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ ایک افسر عہدے پر نہ ہونے کے باوجود 750 لیٹر یومیہ وصول کررہے ہیں۔نیب کراچی نے واٹر بورڈ کو ارسال کردہ خط میں گاڑیاں الاٹ ہونے والے افسران کا ڈیٹا، سالانہ اخراجات کی تفصیلات،بجٹ میں مختص فنڈز، اخرجات کی تفصیلات، منظورشدہ گاڑیوں، جنرٹرز اور ہیوی میشنری یا ٹرک،پیٹرول پمپ کو رقم کی ادائیگی، منظور شدہ سے زائد پیٹرول و ڈیزل استعمال کرنے والے افسران کی فہرست، غیر تصدیق شدہ افسران یا عملے کے ناموں کی فہرست، ڈیجیٹل کارڈ کے ذریعہ ادائیگی، بینک اکاونٹس، لاک بک کی پانچ سال کی تفصیلات بھی ایڈمن افیسر سجاد نے تمام ڈپارٹمنٹ کے افسران سے مانگ لی ہے۔واضح رہے کہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ورکشاپ کے نگران مظہر گذشہ 18سال سے مسلسل اسی عہدے پر تعینات ہے۔پیٹرول و ڈیزل اور کھڑی گاڑیوں کے لاکھوں روپے کے پیٹرول کی بندر بانٹ جاری ہے۔ ورکشاپ کے اس افسر کو ہٹانے کی کئی کوششیں ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں۔اس کے خلاف تحقیقات بھی نہ ہو سکی۔نیب کراچی کی تحقیقات سے ورکشاپ میں کروڑوں روپے کے گھپلے بھی بے نقاب ہونے کی توقع ہے۔