(تحریر:محمد احمد شمسی)
ابھی پچھلے دنوں خبر انٹرنیشنل میڈیا کی زینت بنی جس میں کراچی کا شمار دنیا کے دس بد ترین شہروں میں کیا گیا اور غالباً یہ بارش جس کے بعد شہر کا بچا کھچا انفرا اسٹکچر بھی تباہ ہوگیا شاید کراچی دنیا کے بدترین شہروں میں پہلا نمبر حاصل کر چکا ہے۔
اس شہر کا برساتی نالوں اور سیوریج کا پورا نظام تباہ کردیا گیا ہے برسات سے پہلے ہی سیوریج کا نظام چوک کردیا جاتا ہے۔برساتی نالے صفاٸ نہ ہونے کے باعث پہلے ہی بند ہیں اس پر متزاد یہ کہ گندے نالوں گٹروں کی لاٸنیں اکثر جگہ برساتی نالوں میں ڈال دی گٸ ہیں۔
بارش میں لوگوں کو پریشان کرکے سیوریج سسٹم چوک کرکے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ نالوں کی صفاٸ کی ضرورت ہے اور یہ حکومت نے کاروبار بنالیا ہے کہ نالوں کی صفاٸ کے نام پر ہر سال اربوں روپے ہڑپ کرلیۓ جاتے ہیں کسی نالے کی صفاٸ نہیں ہوتی اور اگلے سال پھر یہی مسلہ کوٸ پوچھنے والا نہیں کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
شہر میں صاف پانی نہیں۔لاٸن میں پانی نہیں ہاٸڈرنٹ میں کمی نہیں۔
روڈ ٹوٹے ہوۓ ہیں۔
تجاوزات کی بھرمار ہے
ٹرانسپورٹ کا کوٸ نظام نہیں۔
امن و امان کی حالت ابتر۔اسٹریٹ کراٸم عروج پر۔
لوگ دنیا بھر میں باران رحمت کی دعاٸیں مانگتے ہیں اور بارش سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن حکومت سندھ اور محکمہ بلدیات کی نا اہلی کے باعث کراچی کے لوگ اب بارش کے نام سے ہی خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔
سرجانی ٹاون سے لے کر ڈیفنس سوساٸٹی تک براتی پانی میں سیوریج ملا گندا پانی روڈوں گلیوں میں کھڑا ہے۔
تاجروں کا عوام کا اربوں کا سامان گندے پانی میں ڈوب کر تباہ ہوگیا۔
وزیر اعلیٰ سندھ۔وزیر بلدیات۔واٹر بورڈ۔کے ایم سی۔ڈی ایم سیز۔ضلعی انتظامیہ۔ڈی ایچ اے۔کنٹونمنٹ بورڈز۔ کے پی ٹی ۔ریلوے غرض کراچی کی زمینوں کے تمام دعویدار اسٹیک ہولڈرز ناکارہ اور ناکام کارکردگی صفر۔ سب حرام کی تنخواہیں اور مراعات کے مزے لے رہے ہیں۔
ٹیکس لینے میں سب سے أگے بدلے میں سہولیات دینے جو ان تمام اداروں کا أٸینی اور قانونی فرض ہے اس کا کوٸ جواب نہیں۔
پہلے تو وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم۔مختلف سیاسی پارٹیاں جنہیں یہ شہر منتخب کرتا ہے دکھاوے کے لۓ ہی سہی شہر کی سڑکوں پر فوٹو شوٹ کرانے أجا تے تھے وہ سب بھی پراسرار طور پر غاٸب ہوگۓ ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی کا دفتر بھی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔کیونکہ نہ تو جوابدھی کا کوٸ خوف ہے نہ سزا کا نہ شرم ہے نہ حیا اور نہ ہی خوف خدا۔
عدلیہ جو چھوٹی چھوٹی چیزوں پر سو موٹو لیتی رہی ہے اسے اس شہر کراچی۔پورے ملک کی معیشت چلانے والے اس غریب پرور شہر کی حالت زار نظر نہیں أرہی۔
کراچی کی تاجر برادری وفاقی و صوباٸ حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ
نشیبی علاقوں سے فوری پانی نکالا جاۓ ۔
ان تاجروں عوام کا نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ کیا جاۓ۔
کراچی کو أفت زدہ قرار دے کے وفاقی و صوباٸ ٹیکس معاف کۓ جاٸیں۔
ہنگامی طور پر سڑکوں۔فٹ پاتھوں۔نالوں۔سیوریج لاٸنوں کی مرمت کی جاۓ۔
عوامی نقصان کے زمہ دار تمام وزرا۔بیوروکریٹس اور اداروں کے خلاف سخت کاراواٸ کی جاۓ سزاٸیں دی جاٸیں اور اداروں سے نکالا جاۓ۔
شہر میں پانی کے نکاسی کے نالے بند کرکے یا چھوٹے کرکے نالوں کی زمین پر پلاٹنگ کرکے اربوں روپے کی بیچ دی گٸ ہے جس میں ماٸ کلاچی اور شہر کے نالوں کیے دیگر نکاسی کے راستوں پر کے پی ٹی۔واٹر بورڈ۔کے ایم سی۔ کے ڈی اے قیوم أباد اور فیز 8 کریک پر ڈی ایچ اے اور کنٹونمٹ بورڈ شامل ہیں۔
یہاں نالے دوبارہ چوڑے اور گہرے نہ کۓ گۓ نکاسی کی صحیح پلاننگ نہ کی گٸ تو کراچی ہر بارش میں ڈوبتا رہے گا۔