کراچی( نمائندہ خصوصی)ایک انقلابی تحقیق، جس میں جدید مصنوعی ذہانت (AI) اور سیٹلائٹ امیجری کا استعمال کیا گیا، نے کراچی میں سبز مقامات کی شدید کمی کو ظاہر کیا ہے جس کے باعث شہر کے رہائشی موسمیاتی تبدیلی اور صحتِ عامہ کے خطرات سے دوچار ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی (AKU) اور نیویارک یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا ہے کہ کراچی میں فی کس سبز مقامات کا تناسب عالمی ادارہ صحت (WHO) کی تجویز کردہ کم از کم حد سے نصف سے بھی کم ہے جو ایک سنگین ماحولیاتی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔یہ تحقیق، جس میں جدید ترین AI ٹیکنالوجی کے ذریعے کراچی کی سبز مقامات کی بے مثال تفصیل کے ساتھ نقشہ سازی کی گئی اس نتیجے پر پہنچی کہ شہر میں فی فرد صرف 4.17 مربع میٹر سبز مقامات دستیاب ہیں جبکہ ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ حد 9 مربع میٹرہے۔ اس کمی کے نتیجے میں شہری گرمی کا جزیرہ (Urban Heat Island) اثر بڑھ جاتا ہے، فضائی آلودگی شدید ہو جاتی ہےاور صحت کی سنگین ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں جس میں کم آمدنی والے طبقے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ڈاکٹر زینب صمد، چیئر، ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسن، آغا خان یونیورسٹی اور تحقیق کی شریک مصنفہ نے کہاکہ "شہر صحت عامہ کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے سبز مقامات محض تفریحی جگہیں نہیں بلکہ انسانی فلاح و بہبود اور ماحولیاتی استحکام کے لیے ضروری ہیں ۔درخت خاص طور پر شدید گرمی سے بچاؤ، کاربن کو جذب کرنے اور شہری سیلاب کے انتظام میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور موسمیاتی چیلنجوں کے پیش نظر شہری منصوبہ بندی میں سبز جگہوں کو ترجیح دینی چاہیے نہ صرف ان کے ماحولیاتی فوائد بلکہ ان کی خوبصورتی اور انسانوں اور جانوروں کو فراہم کردہ پناہ گاہ کی وجہ سے بھی۔”محققین نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے اعلیٰ ریزولیوشن سیٹلائٹ ڈیٹاپر ڈیپ لرننگ کا استعمال کرتے ہوئے ثابت کیا کہ AI پر مبنی تجزیہ روایتی نباتاتی اشاریوں (Vegetation I ndices)
سے زیادہ مؤثر ہے۔ انہوں نے ‘گرین آگمنٹیشن’کا ایک نیا طریقہ متعارف کرایا جس میں مختلف موسمی اور روشنی کے حالات میں پودوں کی تصاویر کے ساتھ نظام کو تربیت دی گئی جس سے سبز مقامات کی شناخت کی درستگی میں 13.4فیصد اضافہ ہوا۔ یہ پیش رفت پالیسی سازوں کو سبز بنیادی ڈھانچے (Green Infrastructure) کا زیادہ درست اندازہ لگانے اور اس میں توسیع کرنے کے لیے ایک بہتر ذریعہ فراہم کرتی ہے۔ نتائج نے کراچی میں سبزے کی کمی اور زمین کی سطح کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے درمیان براہ راست تعلق کو بھی اجاگر کیا جو کہ شہر کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے مزید دوچار کر رہا ہے۔
رومی چنارا، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ڈائریکٹر، سینٹر فار ہیلتھ ڈیٹا سائنس، نیویارک یونیورسٹی نے کہا”ہماری تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ ہم AI کا استعمال کرکے تیز تر، زیادہ درست ،ایک موثرحل تلاش کر سکتے ہیں اور طاقتور شہری منصوبہ بندی کے اقدامات کے ذریعے جگہوں کی تقسیم کو مانیٹر کرکےہم زیادہ بہتر شہری ترقی کی راہنمائی کر سکتے ہیں، وقت کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں اور ایسے شہر بنا سکتے ہیں جہاں انسان اور فطرت ایک ساتھ پنپ سکیں۔ اگر اس تحقیق کو پاکستان کے دیگر شہروں تک توسیع دی جائے تو یہ صحت مند اور زیادہ پائیدار مستقبل کے لیے شہری منصوبہ بندی کو یکسر تبدیل کر سکتی ہے۔”محققین نے شہری منصوبہ سازوں، پالیسی سازوں اور سول سوسائٹی تنظیموں سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہےجن میں درخت لگانے کی مہمات، شہری جنگلات کی بحالی، پارکوں کی بحالی اور شہری ترقی میں سبز بنیادی ڈھانچے کو شامل کرنا شامل ہے۔ کراچی کی رہنے کے قابل صورتحال کا انحصار سائنسی بنیادوں پر کی جانے والی فیصلہ کن شہری منصوبہ بندی پر ہے۔ وقت ہاتھ سے نکلنے سے پہلے عمل کرنا ضروری ہے۔