کیا مذاق بنایا ہوا ہے ہم نے اپنے ملک کا، ’قومی سلامتی‘ کے نام پر قوم کو ہی تقسیم کرکے رکھ دیا۔ بات اگر ’میں نا مانوں‘ تک آجائے تو بس انتظار ہی کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے ایک نہیں، دو تین تین اجلاس ہوچکے ہیں مگر ہم اس بحث سے آگے ہی نہ جاسکے کہ امریکہ نے مداخلت کی ہے یا سازش یا پھر معاملہ ہی کچھ اور ہے۔
’سازش‘ کا لفظ ہماری سیاست میں نیا نہیں لیاقت علی خان سے لے کر عمران خان تک کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکا۔ ہر جگہ سازش کا عنصر تلاش کیا جاسکتا ہے۔بچپن سے سنتے آرہے ہیں ’ملک خطرناک دور سے گزر رہا ہے‘۔ کبھی نظریہ خطرہ میں پڑ جاتا ہے کبھی آزادی اور یوں پہلے 24 برس میں ہی ملک کی اکثریت نے اقلیت سے آزادی حاصل کرلی۔ پھر نعرہ لگا ’نیا پاکستان‘ کا اور چار سال بعد ہی ہم پرانے پاکستان میں چلے گئے یعنی تیسرا مارشل لا۔ پہلے ہم نے اپنے آپ کو محفوظ کرنے اور ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے ایٹم بم بنایا ایک منتخب وزیراعظم کی قربانی دی اب ہم اس کی حفاظت کررہے ہیں۔ کبھی غور کیجئے گا کہ 1965 میں جو جذبہ تھا وہ 1971 میں کیوں نہیں تھا۔
ہر چند سال بعد اس ملک کے ساتھ ایک ’خطرناک‘ کھیل کھیلا جاتا، جو اب بھی کھیلا جارہا ہے۔ کبھی مذہبی نعرہ لگاکر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں کبھی قومی جذبہ کے نام پر ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگاکر آئین کو پامال کردیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک ہم اپنی سمت کا تعین ہی نہ کرسکے بس قوم کو پرکشش نعروں سے بہلاتے رہے اور آج ایک بار پھر ہم وہی کرنے جارہے ہیں۔ ہم نے غلامی سے آزادی حاصل کرلی مگر یہ طے ہی نہ کرسکے کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ خواب ویلفیئر اسٹیٹ کا دیکھا تعبیر میں سیکورٹی اسٹیٹ بنادی۔ پہلا دورہ ہی امریکہ کا کیا اور ابتدا میں ہی معاہدہ ’ایٹم فار پیس‘ کرلیا۔ روس نے معاشی تعاون کی پیشکش کی مگر جذبہ ایمانی نے گوارہ نہ کیا کہ کمیونسٹ بلاک کا حصہ بنیں۔ یہی نہیں روس اور چین نواز جماعتوں پر پابندی لگادی گئی۔ اپنے پیروں پر کیسے کھڑے ہونا ہے یہ کبھی سیکھا ہی نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نہ ہم سیاسی طور پر مضبوط ہوسکے، نہ معاشی طور پر اور نہ ہی مذہبی طور پر کہ برسوں گزرنے کے بعد بھی ہم عید کے چاند پر لڑتے ہیں، زبان اور فرقہ بندی کے نام پر ایک دوسرے کا گلا تک کاٹ دیتے ہیں۔
اپنے مخالفوں کو غدار کہنا اور اپنے آپ کو سب سے زیادہ محب وطن ثابت کرنا بھی ہمارا 75 سال کا محبوب مشغلہ ہے۔ کون محب وطن ہے جو اپنے وقت میں غدار نہیں ٹھہرایا گیا۔ بلوچوں، پختونوں، سندھیوں اور اردو بولنے والوں کے بعد اب تو بہت سے پنجابی سیاست دان اور دانشور بھی غدار ٹھہرے۔
بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا
ہماری فوج نے اپنے آپ کو سیاست سے نیوٹرل کرنے کی کوشش کی تو ہمارے ریٹائرڈ افسران کی فوج سیاست میں آگئی۔ دفاعی تجزیہ کار دفاع پر کم سیاست پر زیادہ بولنے لگے۔ کچھ نے کہا نیوٹرل نہیں رہناچاہئے اور ہمارے کپتان نے تو اس کے معنی ہی بدل دیئے حالانکہ 2014 میں انہوں نے ہی نعرہ لگایا تھا کہ ایمپائر نیوٹرل وہی لے کر آئے اور ہر بار اس کی انگلی کی طرف دیکھتے رہے مگر انگلی کھڑی نہ ہوئی۔
لنگڑی لولی جمہوریت کا سفر سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد شروع ہوا تو اس وقت دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ساتھ چلنے کا عہد کیا ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کرکے اور آئین میں پہلی بار 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری کا مسئلہ خاصی حد تک حل ہوا مگر بدقسمتی سے دونوں جماعتیں اس پر عمل کرنے میں ناکام رہیں اور اس کے ثمرات نچلی سطح تک نہیں پہنچ پائے۔ پھر وہ خود بھی تقسیم ہوگئیں اور ایک تیسرا آپشن عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی شکل میں سامنے آیا۔ اس کا عروج ان دو جماعتوں کی ناکام پالیسیوں کا نتیجہ تھا مگر یہ بات جمہوریت مخالفوں کو ہضم کرنے میں مشکل پیش آئی ہے کہ ایک نئی جماعت کا اور نئے لیڈر کا آنا اسی جمہوری تسلسل کا حسن ہے جو ان کو برا لگتا ہے۔
اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی بار 2008 سے 2013 اور 2013 سے 2018 تک دو حکومتوں نے اپنی میعاد پوری کی اور پرامن انتقال اقتدار ہوا، چاہے دونوں ادوار میں دو دو وزیراعظم آئے۔ شاید اب بھی ایسا ہی ہونا چاہئے تھا اور تیسری حکومت کو بھی میعاد پوری کرنے کا حق تھا۔ اس بات کو رہنے دیں کہ کون کیسے آیا کیونکہ آپ بھی دودھ کے دھلےنہیں۔ عمران خان پانچ سال پورے کرتا تو مسلسل جمہوریت کے 15 سال بنتے۔اب پچھلے چند ماہ میں ایسا کیا ہوا کہ ایک طرف ’مراسلہ‘ کو بنیاد بناکر امریکی سازش یا مداخلت کے ذریعے عدم اعتماد کی تحریک کو پیش کرنے اور کامیابی کا الزام لگایا جارہا ہے تو دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر رہتے تو حکومت کررہے ہوتے۔ آخر خود ہی بتادیں کہ کون سی بات درست ہے۔ تنازعہ ایک کے بعد دوسری متوقع تقرری کی خبروں پر ہوا یا یوکرین پر حملے کے بعد روس کے دورہ پر۔
اب ہمارے سابق وزیراعظم ایک ’آزادی مارچ‘ کرنے جارہے ہیں 75سال پہلے انگریز سے آزاد ہوئے، بھارت سے الگ ہوئے اب امریکہ سے آزاد ہونے جارہے ہیں۔ بیداری اور خودداری اچھی چیز ہے اور جذبہ بھی نیک مگر یہ تو بتادیں کہ ’معاشی‘ قوت بننے کا پلان کیا ہے۔قومی سلامتی کے نام پر قوم کو تقسیم نہ کریں۔ یہی دیکھتا آرہا ہوں آگے بڑھتے بڑھتے پھر برسوں پیچھے چلے جاتے ہیں۔ اللہ خیر کرے…