کراچی/ اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹ کیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں حکومت کا بدلا ہوا موقف حیران کن ہے جو عدالت کے سامنے اس کے پہلے والے موقف کے بالکل برعکس ہے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل سنگل بینچ نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے دائر آئینی درخواست3139/2015 کی سماعت 21 فروری، جمعہ کو کی تھی۔درخواست گزار کے وکلاءایڈووکیٹ عمران شفیق اور محمد زاہد عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ جبکہ درخواست گزار ڈاکٹر فوزیہ اور ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے تھے۔سماعت کے بعد عدالت نے جو حکمنامہ جاری کیا ہے اس کے مطابق مسٹر اسمتھ کے 20 فروری کے ڈیکلیریشن کو ریکارڈ پر لانے کی استدعا منظور کرلی گئی ہے۔ ڈیکلیریشن کلائیواسمتھ نے اس وقت دائر کیا جب ان کو پچھلے ڈیکلیریشن کے جوابات موصول نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے مسٹر اسمتھ نے ایک اور ڈیکلیریشن 20 فروری کو دیا تھا۔ وہ بھی ریکارڈ پر لایا گیا۔عدالت نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان دونوں ڈیکلیریشنز کے جوابات ایک ساتھ پیش کرے۔کلائیو اسمتھ کی درخواست کہ ان کے ساتھیوں ماریہ کاری اور تانیہ صدیقی کو بھی اس عدالت کے سامنے آن لائن پیش ہونے کی اجازت دی جائے، جو منظور کرلی گئی ، وہ آئندہ تمام سماعتوں میں شرکت کر سکتی ہیں۔عدالت کے حکم میں کہا گیا ہے کہ فیڈریشن نے 20 فروری کے پہلے ڈیکلیریشن کے سلسلے میں اپنے جوابات دائر کیے ہیں، جن میں انہوں نے کچھ ایسے موقف اختیار کیے ہیں جو اس عدالت کے سامنے کئی سماعتوں میں اور ایمیکس بریف دائر کرنے سے متعلق اس عدالت کی جانب سے جاری کردہ مختلف احکامات میں ریکارڈ کیے گئے موقف کے بالکل برعکس ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے مکمل انکار کا موقف اختیار کرنا عدالت کے لیے انتہائی حیران کن ہے، کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ موقف اس سوال پر زیادہ غور و فکر اور قانونی فہم کے بغیر اختیار کیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ کیا حکومت اس تحریک سے اپنی حمایت واپس لینے کی طرف جائے گی اور کیا وہ اس سلسلے میں عوام کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے؟ ان پہلوو¿ں پر فیڈریشن نے مناسب طریقے سے غور کیا ہے، کیونکہ یہ معلوم ہونا چاہیے، اور یہ ان کے علم میں ضرور ہوگا کہ ڈاکٹر عافیہ تحریک نے اب عالمی سطح پر توجہ حاصل کر لی ہے جہاں ان کی رہائی میں حکومت اور دیگر فریقوں کے ہر قدم کو دنیا بھر کے لاکھوں لوگ دیکھ رہے ہیں۔عدالت کے حکم میں کہا گیا ہے: ایک بار پھر عدالت کو بہت حیرت ہے کہ اس معاملے میں حکومت کی جانب سے مکمل انکار کے بجائے جزوی طور پر کچھ حقائق سے اختلاف کرنے اور غیر متنازعہ حصوں کی حمایت کرنے کے عام رواج پر عمل کیوں نہیں کیا جا سکا، کیونکہ ان کے مکمل انکار سے نام نہاد ”اعتراضات مواد“ ویسے بھی امریکی عدالت کے سامنے پیش ہونے سے نہیں روکا جا سکتا ہے۔ فیڈریشن کی غیر معقول ہٹ دھرمی کا نتیجہ دنیا بھر میں یہ دیکھا جائے گا کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کی جانے والی کوششوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔معزز ایڈیشنل اٹارنی جنرل اس معاملے اور ڈیکلیریشن میں اٹھائے گئے دیگر امور پر مزید ہدایات حاصل کرنے کے لیے وقت چاہتے ہیں۔گزشتہ سماعت میں زینب جنجوعہ، ایمیکس کیوری؛ بیرسٹر منور اقبال ڈوگل، ایڈیشنل اٹارنی جنرل؛ یاسر عرفات عباسی، اے اے جی؛ فیاض الحق، جوائنٹ سیکرٹری اور ہمایوں کوریجہ، سیکشن آفیسر، وزارت داخلہ؛ مریم آفتاب، ایڈیشنل سیکرٹری (امریکہ) وزارت خارجہ؛ محمد حمزہ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر-یو ایس، وزارت خارجہ؛ اسد برکی، لیگل ایڈوائزر، وزارت خارجہ بھی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔کیس کی آئندہ سماعت 28 فروری کو ہوگی۔