کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)سندھ حکومت نے کراچی کے تین نالوں کے 6932 متاثرین میں دس ارب روپے فنڈز کی منظوری دے دی ہے۔ متاثرین کو فی کس 14 لاکھ 50 ہزار روپے امدادی چیک کی تقسیم پر کمشنر کراچی سید حس نقوی نے تین رکنی کمیٹی قائم کی ہے جس میں KMC کے ریٹائرڈ افسر مظہر خان کو شامل کرنے پر سرکاری حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ ایڈیشنل کمشنر ون اسٹنٹ کمشنرریوینو سمیت کمیٹی امدادی چیک کی شفاف اور منصفانہ تقسیم کا فارمولا مرتب کرکے سات دن میں رپورٹ کمشنر کراچی کو پیش کرے گی،جبکہ متاثرین کی آبادکاری کا رہائشی منصوبہ تیسر ٹاون میں ہوگا جس کا پی سی ون 5 ارب 36 کروڑ روپے مالیت کی منظوری دے دی گئی ہے۔ پانچ سال سے نالے کی تجاوزات سے بے دخل کرنے پر فی کس 3 لاکھ 60 ہزار روپے یعنی دو ارب 49 کروڑ 55 لاکھ 20 ہزار روپے دو سال کا کرایہ کی مد میں ادائیگی کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر 25 ارب روپے صرف نالے کی آبادکاری کے منصوبے پر خرچ ہوں گے، جن میں وفاقی حکومت نے تجاوزات کی صفائی اور نالے کی تعمیر پر دس ارب روپے براہ راست خرچ کیئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے منصوبے پر سپریم کورٹ کی ہدایت پر عملدرآمد کیا ہے۔ متاثرین کی آبادکاری کا ملک بھر میں اپنی نوعیت کا یہ انوکھا منصوبہ ہے جس میں مبینہ طور پر صوبائی حکومت منصفانہ طور پر عملدرآمد میں تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔ متاثرین کے ہٹانے اور نالے کی تعمیر پر وفاقی حکومت نے دس ارب روہے کی ادائیگی کی، تاہم سپریم کورٹ کی ہدایت پر سندھ ہائی کورٹ عملدرآمد کی نگران بن گئی ہے۔ یاد رہے آئل ٹرمینل کے متاثرین بھی داد رسی کے منتظر ہیں۔ کراچی سرکلر ریلوے کے متاثرین اور مجاہد کالونی کے متاثرین کی آبادکاری التواء کا شکار ہے۔اب یہ متاثرین آرمی چیف سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ ان کی آبادکاری پر فوری عملدرآمد کرائیں ورنہ سندھ حکومت
کراچی سسٹم کے تحت ان کی زمینیں ہڑپ کر لے گی۔ یہ متاثرین دھائیاں دے رہے ہیں کہ انہیں کراچی سسٹم سے بچایا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی متاثرین کے نام، ولدیت، مرد یا عورت،عمر، قومی شناختی کارڈ،دیگر فیملی ممبران اور سربراہ کانام،مکان قانونی یا غیر قانونی، لیز یا سب لیز جاری کرنے والے ادارے کانام،زمین کا رقبہ،کچا یا پکا تعمیرات، بجلی گیس سمیت دیگر سہولیات،، نالہ پر تجاوزات زمین کا رقبہ،نالے پر تجارتی خاص طور پر دکانیں،ورکشاپ، پارکنگ استعمال ہونے والے کے اعداد و شمار اور رپورٹ کا ازسرنو مکمل جائزہ لیا جائیگا۔ ان کی تصدیق بھی آزاد ذرائع سے کرانے کی سفارش ارسال کریں گے۔ متاثرین کیلئے مختص رقم اکاونٹ میں ڈالنے سے قبل تمام حلقوں سے تصدیق کے لئے KMC کی کچی آبادی کو ٹاسک ملنے کا توقع ہے۔ وفاق نے نالے کے منصوبے کے لئے 5 ارب روپے مختص کر رکھے ہیں۔ متاثرہ خاندان کو فی کس تین لاکھ 60 ہزار روپے دیدیا کیا ہے جبکہ نالے اور سڑک کی تعمیرات کے لئے کراچی پیکج کے تحت پانچ ارب روپے ایف ڈبلیو او نے خرچ کیئے ہیں، جس میں نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ ایف ڈبلیو او اور این ایل سی نے بھرپور کام کیا ہے۔ کراچی کے 38 بڑے نالوں کے علاوہ 514 دیگر
برساتی اور سیوریج نالوں کی صفائی کا کام کرنے کا منصوبہ شامل تھا، نہیں ہوسکا ۔کراچی کو صاف اور ماحولیاتی آلودگی سے پاک کیا جائے گا۔ منظور کالونی نالے کی لمبائی 23 کلومیٹر، گجر نالے کی 33 کلومیٹر اور اورنگی نالے کی 28 کلومیٹر طویل ہے۔ مجموعی طور متاثرین کی تعداد 6932 ہے۔ ان متاثرین کے مکانات دکانیں، ورکشاپ، دیگر تجارتی مکانات گرائے تھے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر ری سٹمنٹ آف متاثرین گجر، اورنگی اور منظور کالونی نالہ افاق سعید ہیں جن کی نگرانی میں ان متاثرین کی آبادکاری تیسر ٹاون میں ہوگی۔ اس کا پی سی ون 5 ارب 36 کروڑ روپے کی منظوری دیدی گئی ہے۔ فنڈز کی موجودگی میں یہ کام تین سال کے دوران مکمل کیا جائے گا۔ اس کیلیئے تیسر ٹاون میں دو سو ایکٹر اراضی مختص کی گئی ہے۔80 گز کے مکانات جن میں دو کمرے، کچن، باتھ رومز، تجارتی شاپس، دکانوں کے ساتھ سڑکیں، پانی، سیوریج کا نظام، پارکس، مساجد، ہسپتال، تعلیمی ادارے کے ساتھ فلاحی ادارے کا قیام شامل ہے۔15 سال تک مکانات کے ٹرانسفر پر پابندی ہوگئی اور بعد ازاں مالکانہ حقوق یعنی مکانات کی لیز کے اجراء کیئے جانے کی شرائط عائد کی گئی ہے۔ پی سی ون کے مطابق تیسر ٹاون سیکٹر میں 3888، سیکٹر 61 میں 1091 اور سیکٹر 62 میں 1962 مکانات تعمیر ہوں گے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کراچی دنیا کا اپنی نوعیت کا
واحد میگا سٹی ہے جہاں ایک شہر میں 23 لینڈ کنٹرول ادارے،21 میونسپل ادارے بیک وقت کام کررہے ہیں۔ یہ ساڑھے چار کروڑ سے زائد آبادی والا شہر بن چکا ہے لیکن حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ اس شہر کا کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے۔کراچی میں کئی سال سے ٹرانسپورٹ کے نام پر سندھ حکومت کا دھوکہ اور فراڈ جاری ہے۔ 50 سال سے زائد عرصہ سے کچی آبادی، گوٹھ آباد اور بورڈ آف ریوینو کی زمینوں پر غیر قانونی قبضہ جاری ہے لیکن بجلی کے بحران کا حل اور داد رسی نہ کی گئی۔ اس شہر میں ٹرانسپورٹ، سیوریج، پانی اور کچرے کے مسائل حل نہ ہوسکے۔ نالے ہر قبضہ سابق صدر ایوب خان کے دور میں ان ہی کے ایماء اور آشیرباد پر مخصوص مفادات کیلیئے شروع ہوا تھا جو اب ندی نالوں، پارکس، کھیلوں کے میدان، رفاہی،فلاحی سمیت دیگر سرکاری و نجی اراضی پر قبضہ ایک کاروبار بن گیا ہے۔ کراچی میں رہائشی منصوبوں کے ساتھ سڑکیں،پل، انڈر پاسز، فلائی اوور اور دیگر منصوبوں میں آباد کاری کے نام پر ہزاروں خاندانوں کو مختلف رہائشی منصوبے میں آباد کیا گیا تھا۔ حال ہی میں لائنز ایریا پریڈی اسٹریٹ کے 14 ہزار سے زائد متاثرین کو منظور کالونی میں آباد کیا گیا تھا جہاں چائنا کٹنگ کے 20 ہزار افراد زمین پر قبضہ جما چکے ہیں لیکن کسی ایک خلاف بھی کاروائی نہ ہوسکی۔