کراچی(اسٹاف رپورٹر) ایم کیو ایم پاکستان میں پچھلے کئی ماہ سے تلاطم اور طغیانی نظر آرہی تھی مگر مرکزی رہنمائوں کی جانب سے پرسکون لہروں کاراگ الاپا جارہا تھا، ہفتے کو عارضی مرکز بہادر آباد پر ناراض کار کنوں کے دھاوے نے تمام پول کھول دئیے،تمام تر دعوں کے باوجود اب بھی سب کچھ اچھا نہیں، مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے مرکزی کمیٹی کا مشاورتی واٹس اپ گروپ چھوڑ دیا ہے تو پارٹی کے چیئر میں ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی نے واضح کیا کہ احتجاج کرنے والوں کو تنظیمی نظم و ضبط کے مطابق دیکھیں گے، ایم کیو ایم ڈسپلن والی پارٹی ہے، ایسے عناصر کی پارٹی میں کوئی گنجائش نہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنہوں نے پارٹی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی ان کے خلاف پارٹی ایکٹ کے تحت فیصلے کریں گے۔ کامران ٹیسوری ایم کیو ایم کے گورنر ہیں، وہ گورنر رہیں گے اور وہ کہیں نہیں جارہے۔ مجھ سمیت پوری پارٹی کو گورنر سندھ کامران ٹیسوری پر اعتماد ہے، ایم کیو ایم گورنر ہاؤس سے نہیں چل رہی، کل کا واقعہ افسوسناک ہے،22اگست 2016کے بعد نئے روپ میں سامنے آنے والی ایم کیو ایم ابتداءمیں ہی کامران ٹیسوری کے معاملے پر انتشار کا شکار ہوئی،کامران ٹیسوری پارٹی کی جانب سے سینیٹ کا حصہ نہ بن سکے مگر گورنر بن کر ایم کیو ایم کا حوصلہ ضرور بن گئے،پی ایس پی اور ایم کیو ایم نظریاتی کے انضمام کے بعد2024کے انتخابات میں سنیئر رہنما مصطفی کمال نے پارٹی کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ، ایم کیو ایم دوبارہ سے کراچی کی بڑی سیاسی اسٹیک ہولڈر پارٹی بن گئی،تاہم واپس آنے والوں کی جانب سے قیادت اور وزارت کو الگ رکھنے کی باز گشت سے پھر پارٹی میں تقسیم اور اختلافات نمایاں ہونے لگے،ایم کیو ایم کے ترجمان نے ایک رو ز کی خاموشی کے بعد اتوار کو کہا کہ دو روز سے میڈیا پر مسلسل ایم کیو ایم سے متعلق من گھڑت خبریں چلارہا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، پارٹی انتخابات کو میڈیا نے نہیں بلکہ خود اس کے ایک سنیئر رہنما نے میڈیا میں اچھالا،اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مرکزی قیادت کے اختلافات نچلی سطح کے کار کنوں تک پہنچ گئے ہیں،سوشل میڈیا پر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور سید مصطفی کمال کے حامی ان کے حق میں مہم چلارہے ہیں،ایم کیو ایم کے مختلف سوشل میڈیا گروپس بھی تقسیم کا شکار ہیں، خاموش کارکن بھی متحرک ہیں ان کا کہنا ہے کہ شہری ڈمپر سے مررہے ہیں اور لیڈر آپس میں لڑ رہے ہیں، ایم کیو ایم کے متحد ہونے کے باوجود یہ بات دکھائی دے رہی تھی کہ قیادت اور کارکنوں کے درمیان یکسوئی کا فقدان اور ان کے درمیان تحفظات ہیں، ایم کیو ایم کو اپنی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی لانا ہوگی،نئی حکمت عملی بنانا ہوگی، منتخب نمائندوں کو علاقائی سطح پر فعال کرنے کی پالیسی بنانا ہوگی،محمد حسین، سابق مئیر کراچی وسیم اختر،کشور زہرا، فروغ نسیم،سابق ڈپٹی مئیر ارشد حسین،سمیت کئی اہم رہنما منظر سے غائب ہیں، اسی طرح نو سال بعد بھی ایم کیو ایم میں کسی اہم شخصیت نے شمولیت اختیار نہیں کی، سیاسی ایشوز پر بھی ایم کیو ایم کا اندازماضی جیسا جارحانہ نہیں، دوسری جانب ایم کیو ایم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ،ایم کیو ایم سوشل میڈیا پر چند عناصر معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، سوچی سمجھی سازش کے تحت ایم کیو ایم کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے،شرپسند عناصر کارکنان کو آپس میں لڑواکر اپنے مذموم مقاصد کا حصول چاہتے ہیں، ایم کیو ایم پاکستان ایک جمہوری جماعت ہے جہاں مباحثہ اور مختلف آراء جمہوری روایات کی عکاس ہیں، قیادت متحد ہے اور تمام صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہے، کارکنان اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں اور کسی شرانگیزی کا شکار نہ ہوں۔