اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی)پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے بھاشا ڈیم فنڈز کی تفصیلات طلب ،رقم کے خصوصی آڈٹ کی ہدایات دیتے ہوئے سابق چیئرمین واپڈا کو آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا، کمیٹی نے مہمند ڈیم کا کنٹریکٹ ایوارڈ کرنے میں بے ضابطگیوں پر فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کا حکم دیتے ہوئے انکوائری کمیٹی میں منصوبہ بندی ڈویژن کے افسران کو بھی شامل کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا ہے کہ نیب سے ایسٹ ڈیکلریشن مانگی تو پلندہ بنا کر عدالت چلے گئے، ہمارے لئے تمام ادارے قابل احترام ہیں ،انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے ،سابق چیئرمین نیب پر سنگین الزامات ہیں، اگروہ کلیئر ہیں تو کمیٹی میں پیش ہوں، ڈر کیوں رہے ہیں ۔بدھ کو پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی نور عالم خان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں قائم مقام چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم پیش ہوئے۔ چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ نیب سے ایسٹ ڈیکلریشن مانگی تو پلندہ بنا کر عدالت چلے گئے، شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ نیب کو ایسٹ ڈیکلریشن مانگنا برا لگا لیکن یہ روز لوگوں کے کپڑے اتارتے ہیں، نیب کیلئے لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا، لوگوں کو تھپڑ مارنا بھی آسان ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں وہ نہیں کہ نیب پگڑی اچھالے یا ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال حاضر کر دوں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہمارے لئے نیب اور عدالتیں تمام ادارے قابل احترام ہیں، آپ کے ادارے کے سابق چیئرمین پر سنگین الزامات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ چیئرمین نیب ڈر کیوں رہے ہیں اگر وہ کلیئر ہیں تو کمیٹی میں پیش ہوں۔ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم نے کہا کہ چیئرمین کمیٹی آپ نے کہا کہ مرد خواتین کو ہراساں نہ کریں،
برائے مہربانی یہ بھی کہہ دیں کہ خواتین بھی مردوں کو ہراساں نہ کریں، ڈی جی نیب لاہور نے سابق چیئرمین پر الزام عائد کرنےوالی طیبہ گل پر سنگین الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ طیبہ گل پر دھندہ چلانے کے الزام میں 40ایف آئی آر درج ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے ڈی جی نیب لاہور سے کہا کہ اب دوبارہ یہ لفظ نہ استعمال نہ کریں۔ برجیس طاہر نے کہا کہ ڈی جی نیب لاہور اگر چیئرمین کمیٹی کو نہیں سن سکتے تو اجلاس سے باہر چلے جائیں۔ چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ رولز پڑھ لیں تو آپ کوکمیٹی کے اختیارات کا علم ہو جائےگا۔چیئرمین کمیٹی نے نیب کو ہدایت کی کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے ،گیارہ اگست کو نیب سے متعلق اجلاس منعقد ہوگا،کچھ کیسز سے متعلق معلومات لینا چاہتے ہیں،پی اے سی نے نیب کو خط لکھا ہے۔ قائم مقام چیئرمین نیب ظاہر شاہ نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ 2008سے پی اے سی کے اجلاس میں آرہا ہوں،کمیٹی کے اجلاس میں بلانے کا طریقہ کار مناسب نہیں ہے، سیکرٹری داخلہ کو ہمیں لانے کےلئے کہا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پی اے سی کی ہدایت پر اپنے قانونی ٹیم سے پوچھا ہے،عدالت سے رہنمائی مانگی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال اپنے اثاثوں کی تفصیلات ایف بی آر میں جمع کرواتے ہیں،کسی بھی کمیٹی میں ملازمین کے اثاثوں کی تفصیلات نہیں مانگی جاتی،امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ ۔ رکن کمیٹی طاہر برجیس نے سوال کیا کہ ارکا ن پارلیمنٹ اثاثے ظاہر کرتے ہیں تو یہ کون سا امتیاز ہے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایم این اے ، ایم پی ایز سب کے اثاثے ظاہر ہوتے ہیں،ملک میں اثاثوں سے متعلق صرف سیاستدانوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔اجلاس میں چیئرمین پی اے اسی نے مہمند ڈیم کا کنٹریکٹ ایوارڈ کرنے میں بے ضابطگیوں پر فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ انکوائری کمیٹی میں منصوبہ بندی ڈویژن کے افسران کو بھی شامل کیا جائے۔ رکن کمیٹی نزہت پٹھان نے کہا کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے جو فنڈ اکٹھا کیا گیا وہ کہاں گیا جس پر پی اے سی نے ڈیم فنڈ کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے پی اے سی نے ڈیم فنڈ میں جمع ہونےوالی رقم کے خصوصی آڈٹ کی ہدایت کی۔پی اے سی نے سابق چیئرمین واپڈا کو آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا، رکن کمیٹی برجیس طاہر نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کو بھی بلا لیں جن کا فنڈ تھا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ فنڈ میں کوئی گڑبڑ سامنے آئی تو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی بلائیں گے جس پر رکن کمیٹی شبلی فراز نے کہا کہ وہ فنڈ سابق چیف جسٹس کا تھا،آپ بتائیں قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم کا پیسہ کہاں گیا۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ شبلی صاحب آپ بہت پرانی بات کر رہے ہیں، شبلی فراز نے کہا کہ ڈیم فنڈ میں جو رقم جمع ہوئی اس کا حساب کتاب ہونا چاہئے۔اجلاس میں وزارت آبی وسائل کے آڈٹ اعتراضات پر بھی غور کیا گیا ، آڈٹ حکام نے بتایا کہ مہمند ڈیم کا کنٹریکٹ دینے میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی،بین الاقوامی میڈیا میں اشتہار نہیں دیا گیا جس پر برجیس طاہر نے کہا کہ رولز پر عمل کیوں نہیں کیا، ایویلیوایشن کمیٹی کے ممبرز کون تھے؟۔سیکرٹری آبی وسائل نے بتایا کہ چار اخبارات میں اشہار دیا، پراجیکٹ کی لوکیشن اور حالات آپ کے سامنے ہیں،صرف دو کمپنیوں نے بڈنگ میں حصہ لیا تھا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آپ نے دوبارہ بڈنگ کیوں نہیں کی،میرا خیال ہے وہ کمپنی وفاقی وزیر کی تھی۔