اسلام آباد:(نمائندہ خصوصی)آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر مسعود خان نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے دفعہ370کی منسوخی اور اس کے نتیجے می مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی وسیع تر بھارتی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصداپنے تسلط کو طول دینا، اقلیتوں کومعاشی طورپر کمزور اور حق رائے دہی سے محروم کرنا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مسعود خان نے یہ بات سنٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز (CISS)اسلام آباد کے زیر اہتمام ایک گول میز مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔ مسعود خان نے جو بیجنگ اور واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر اور اقوام متحدہ میں نمائندے کے طور پر خدمات انجام دینے والے سابق سفارت کار بھی ہیں، کہا کہ ہندوتوا کا ایجنڈا کشمیر سے آگے پھیلا ہوا ہے جس کا مقصد پورے برصغیر کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنا ہے۔انہوں نے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے ثبوت کے طور پر 2023میں بھارتی پارلیمنٹ میں نصب کیے گئے اکھنڈ بھارت نقشے کا حوالہ دیا۔ سٹریٹجک ڈیٹرنس کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے پاکستان سے کہا کہ وہ بیرونی دبا ئو میں نہ آئے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی تقسیم کے باوجود قومی سلامتی ہرایک کی ترجیح ہونی چاہیے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد مجیب افضل نے بھارت کی سیکولر شناخت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ 1947کے بعد اس کے گورننس ڈھانچے میں اقلیتوں کو منظم طریقے سے کمزورکیاگیا۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کو سیاست، ملازمت اور عوامی زندگی میں ادارہ جاتی امتیاز کا سامنا ہے جس سے گہرے تعصبات کو تقویت ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ تشدد اور مذہبی تقسیم کو انتخابی کامیابی کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔سنٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیزکے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سرور نقوی نے مباحثے کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور اسرائیل جیسی قابض ریاستیں اپنی مرضی سے مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گی۔ انہوں نے کہاکہ انہیں میز پر لانے کے لیے بین الاقوامی دبائو ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیںبلکہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ایک تنازعہ ہے اور پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں ان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔علی سرور نقوی نے کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھنے کے پاکستان کے عزم کا ذکرکرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بیانات جاری کرنے کے بجائے ٹھوس اقدامات کرے۔