لاہور( نمائندہ خصوصی):سینئر صوبائی وزیر پنجاب مریم اورنگزیب نے پہلی جوائنٹ CPA کانفرنس برائے Climate Change And Sustainable Cities:Legislative Action For Clean Air And Resilient Urban Leaving سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام قومی و بین الاقوامی مندوبین کی شرکت خوش آئند ہے اور ماحول کے تحفظ کے حوالے سے کانفرنس کے انعقاد پر اسپیکر پنجاب اسمبلی کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب ایک گنجان آباد صوبہ ہے، اور اسے آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لیے وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے آتے ہی ماحولیاتی لیگل فریم ورک، کاربن کریڈٹ، گرین پنجاب پروگرام، ماحولیاتی تبدیلی کے لیے مزاحمتی اقدامات، جدید گرین ٹیکنالوجی اور گرین میکانزم پر کام شروع کر دیا تھا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف ماحولیاتی تبدیلی اور گرین وژن کی قیادت کر رہی ہیں اور ان کے مطابق انسانی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے اجتماعی کوششیں ناگزیر ہیں۔یہ ماحولیاتی پیراڈائم شفٹ کا دور ہے، اور دو اضلاع میں کامیابی کے بعد اب تمام اضلاع میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی جامع منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ماحولیاتی پالیسی سازی ایک چیلنج تھا، لیکن وزیراعلیٰ کی قیادت میں ایک سال کے اندر ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف مزاحمت کی پالیسی تیار کی گئی۔ گرین ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی گئی، اور روایتی پیٹرول ٹرانسپورٹ کو ماحول دوست بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب اس وقت ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) بحران کا شکار ہے، اور اس کی بہتری کے لیے پہلے تین ماہ منصوبہ بندی، قانون سازی، مانیٹرنگ اور سرویلنس پر کام کیا گیا، جس کے بعد عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پہلی بار ملٹی سیکٹورل حکمت عملی کے تحت ادارے ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔ تمام بھٹے سنٹرل کنٹرول روم، ڈرون کیمروں اور QR کوڈز کے ذریعے زِگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیے جا چکے ہیں، جبکہ چھوٹے صنعتی یونٹس کے ایمیشن کنٹرول سسٹمز کے لیے 2 بلین روپے کی مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔پلاسٹک آلودگی کے خاتمے کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی گئی ہے، اور 75 مائیکرون سے کم کے پلاسٹک بیگز پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے۔ مقامی کسانوں کو 60 فیصد سبسڈی پر سپر سیڈرز فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ کھیتوں میں باقیات نہ جلائیں۔ لاہور ڈویژن کو پنجاب گرین کلین پروگرام کے تحت الیکٹرک ٹرانسپورٹ پر منتقل کیا جا رہا ہے۔حکومتی اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں 11 فیصد کمی آئی ہے، جبکہ 90,000 مریضوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بھارت کو ماحولیاتی سفارتکاری کے حوالے سے باضابطہ خط بھیجا گیا ہے تاکہ سرحد پار آلودگی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔عوام کی شرکت یقینی بنانے کے لیے یونین کونسلز میں کلیک اینڈ ویلز مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ نصاب میں گرین انفراسٹرکچر اور اسکالرشپ پروگرامز شامل کیے جا رہے ہیں تاکہ نوجوان ماحولیاتی ماہرین بن سکیں۔ صنعتوں اور اینٹوں کے بھٹوں کی ای میپنگ مکمل ہو چکی ہے اور ایکو واچ ایپ کے ذریعے مانیٹرنگ کا عمل جاری ہے۔محکمہ تحفظ ماحول کو ڈیجیٹائز کیا جا چکا ہے، اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی ہے۔ دسمبر تک 30 ایئر کوالٹی مانیٹرز نصب کیے جا چکے ہیں، جبکہ مزید 30 مانیٹرز کی تنصیب اگلے ماہ تک مکمل ہوگی۔ جلد ہی پنجاب میں 100 AQI مانیٹرز کا ہدف مکمل کر لیا جائے گا۔انسدادِ اسموگ کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے آتے ہی قانون سازی، ملٹی سیکٹورل ایکشن پلان، متعلقہ اداروں کی اپگریڈیشن، شجرکاری اور ماحولیاتی مزاحمتی پالیسی پر عملی اقدامات کیے۔ پنجاب کے تمام اداروں کو سموگ سیزن میں ایکشن پلان کے تحت متحرک رکھا گیا۔ای چارجنگ اسٹیشنز میٹرو بس اسٹیشنز پر قائم کیے جا رہے ہیں، جبکہ تھری وہیلرز اور ٹو وہیلرز کی ریٹروفٹنگ پر کام جاری ہے۔ بیٹری اسٹیشنز بھی قائم کیے جا رہے ہیں، اور گرین ٹیکنالوجی پر سبسڈائزڈ قرضے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ماحولیاتی آگاہی مہم پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر شروع کر دی گئی ہے۔ پلاسٹک کے استعمال پر پابندی ایک مشکل فیصلہ تھا، لیکن تین ماہ کی آگاہی مہم کے بعد قانون پر سختی سے عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے، اور آج بھی اس پر سختی سے عمل کیا جا رہا ہے۔ہر ڈیپارٹمنٹل اسٹور، دکان اور مارکیٹ کی چیکنگ جاری ہے۔ محمود بوٹی میں جدید سالڈ ویسٹ مینجمنٹ نظام متعارف کرایا گیا ہے، اور تمام ماحولیاتی فریم ورکس کو قانونی تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا رہا ہے۔پلانٹ فار پاکستان کے تحت ہاؤسنگ سوسائٹیز میں درختوں کی کٹائی روکنے کے لیے گرین NOC لازمی قرار دیا گیا ہے، جبکہ 40 فیصد گرین ایریا مختص کرنا بھی لازم قرار دیا گیا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی قیادت میں پنجاب حکومت ماحولیاتی بہتری کے لیے عملی اقدامات اٹھا رہی ہے، اور یہ سفر ترقی و خوشحالی کے نئے سنگ میل طے کرتا رہے گا۔