اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی)وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نےکہا ہے کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے سے متاثرہ ملک کے طور پر ہمیں بڑھتے ہوئے مسائل، شدید موسمی تغیرات، پانی کی کمی اور ماحولیاتی انحطاط کا سامنا ہے، پاکستان دوسروں کی پیدا کردہ مصیبت کا خمیازہ بھگت رہا ہے، پاکستان کا عالمی گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے ، موسمیاتی مالی معاونت، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور صلاحیت سازی بہت ضروری ہے، صوبائی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے حوصلہ افزاء اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو یہاں ڈان میڈیا گروپ کی جانب سے بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سے منعقدہ ’’بریتھ پاکستان‘‘ کانفرنس میں کیا جس دنیا بھر سے پالیسی سازوں، ماحولیاتی ماہرین، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی اور بڑھتے ہوئے ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے فوری اور کثیر الجہتی اقدامات پر زور دیا۔ کانفرنس کا ایجنڈاپاکستان کی موسمیاتی مالی ضروریات اور دستیاب وسائل کے درمیان واضح فرق پر مرکوز تھا۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ پاکستان کے ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے سے دوچار ملک کے طور پر ہمیں بڑھتے ہوئے مسائل، شدید موسمی تغیرات، پانی کی کمی اور ماحولیاتی انحطاط کا سامنا ہے تاہم ان پر قابو پانے کی صلاحیت ہماری پہچان ہے۔ ماحولیاتی ناانصافیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ پاکستان دوسروں کی پیدا کردہ مصیبت کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی موسمیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے، پاکستان کا عالمی گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے ۔رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلہ کے حل کے لئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے، موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی شراکت داری کا کردار بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی مالی معاونت، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور صلاحیت سازی بہت ضروری ہے، صوبائی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے حوصلہ افزاء اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ پنجاب موسمیاتی تبدیلی و پائیدار شہری منصوبہ بندی میں پیش پیش ہے، خیبر پختونخوا کے جنگلات کی افزائش اور حفاظت قابل مثال ہے۔یو این ای پی ایشیا پیسیفک کے ریجنل ڈائریکٹر کی سینئر ریجنل ایڈوائزر برائے کلائمیٹ اینڈ اینوائرنمنٹ ابان مارکر کبراجی نے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات پر قابو پانے کی کوششوں پر زور دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم ایک انتہائی غیر متوقع صورتحال سے گزر رہے ہیں، لہٰذا ہمیں اسی تناظر میں منصوبہ بندی بھی کرنی چاہیے۔ اس منصوبے کا آغاز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی کے بحران پر قابو پانے کی کال سے ہوا۔پاکستان میں یونیسیف کے نمائندے عبداللہ فاضل کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے نوجوانوں کی شمولیت بہت اہم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو کس طرح بہترین طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’نوجوانوں کو تعلیم دینا اور سکولوں کے نصاب میں ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے آگہی فراہم کرنا بہت اہم ہے۔پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے ا پنے خطاب میں جنوبی پنجاب میں شدید سیلاب، ہیٹ ویو، ہوا کے مضر صحت معیار اور پانی کی قلت پر بات کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں پنجاب بھر میں آب و ہوا کی لچک کے لیے ایک جامع، مربوط اور کثیر الجہتی نقطہ نظر اپنانا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ سموگ کے خاتمے کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ پنجاب بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے منصوبوں کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔پالیسی ماہر اور سینئر لیگل پریکٹیشنر ڈاکٹر دائود منیر کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمیں اپنے حال کے حوالے سے نہیں، آنے والی نسلوں کے حوالے سے سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سرکاری اور نجی شعبے کے درمیان تعاون مرکزی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ کوئی بیرونی مسئلہ نہیں ہے۔ حکومتی اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی(پی 3 اے) کے ذریعے اب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ مکالمے کو فروغ دینے کے لیے ایک فعال رسمی راستہ موجود ہے۔پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے سی ای او اور سیکرٹری جنرل منیر کمال نے کوپ 23 کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جہاں تک موسمیاتی تبدیلی کا تعلق ہے تو پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ترین ممالک میں 8 ویں نمبر پر آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کانفرنس ہمارے لیے ایک ویک اپ کال ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے 2022ء میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بھگتے ہیں، اب یہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں 2022ء کے سیلاب سے بڑے پیمانے جو تباہی ہوئی، وہ موسمیاتی تبدیلی ہی کا نتیجہ تھی۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(لمز) کے بانی سید بابر علی نے پانی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو احساس ہونا چاہیے کہ ہمارے لیے پانی کو بچانا کتنا ضروری ہے، صنعتوں کے تازہ پانی کے استعمال سے پانی کی مقدار کم ہو سکتی ہے، تازہ پانی استعمال کرنے والی صنعتوں کو پانی ری سائیکل کرنا چاہیے تاکہ پانی کے قطرے قطرے کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔انہوں نے ڈرپ اریگیشن کے استعمال کے لیے کاشتکاروں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اس حوالے سے خود کو تعلیم یافتہ بنانا چاہیے تاکہ بعدازاں یہ معلومات صنعتوں اور کاشت کاروں کے ساتھ بانٹی جا سکیں۔پارلیمانی سیکرٹری منصوبہ بندی، ترقیات و خصوصی اقدامات وجیہہ قمر نے کہا کہ حکومت پاکستان نے ماحول دوست نقل و حمل کو فروغ دینے کے لیے الیکٹرک وہیکل کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی ہے تاکہ پبلک-پرائیویٹ پارٹرنر شپ فریم ورک کے تحت نجی شعبے کی اس ضمن میں سرمایہ کاری بڑھ سکے، ہم کم دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے استعمال کی ترغیب دے رہے ہیں جبکہ گاڑیوں کے دھویں کے اخراج کے معیارات کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔بھارتی اخبار دی وائر کے نیوز ایڈیٹر سوماشری سرکار نے کہا کہ ایک چھوٹی سی ٹیم ہونے کے باوجود ہمارے پاس ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ایک صحافی ہے اور ہماری تنظیم میں بہت سے لوگ آب و ہوا پر رپورٹ کرتے ہیں تاہم مرکزی میڈیا میں اس کی پیروی نہیں کی جاتی۔دو روزہ عالمی موسمیاتی کانفرنس ’’بریتھ پاکستان‘‘ جمعہ کے روز اختتام پذیر ہوئی جس میں بڑھتے ہوئے ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے فوری اور کثیر الجہتی اقدامات پر زور دیا گیا۔ اس کانفرنس کا اہم نکتہ پاکستان کی موسمیاتی مالی ضروریات اور دستیاب وسائل کے درمیان واضح فرق تھا۔