اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی):موسمیاتی و مالیاتی ماہرین اور پالیسی سازوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کی سنگینی سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں، علاقائی تعاون اور اختراع کی اہمیت پر ضرورت زور دیا ہے۔ جمعرات کو یہاں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ڈان میڈیا گروپ کے زیراہتمام عالمی موسمیاتی کانفرنس ’بریتھ پاکستان‘ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرے سے دوچار ملک ہے، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے لے کر بے ترتیب بارشوں تک، آب و ہوا کی تبدیلی ، ماحولیات اور معیشت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے جس کے خلاف جنگ اکیلے نہیں لڑی جاسکتی،موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا اہم مسئلہ ہے، کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود پاکستان کو اس تبدیلی کے سنگین نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے "اڑان پاکستان” منصوبے کا اعلان کیا گیا، جس کے تحت ہائیڈرو الیکٹرک پارکس قائم کیے جائیں گے، سیلاب اور ہیٹ ویو کی پیشگی اطلاع کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا اور کم کاربن کے اخراج والے منصوبوں پر توجہ دی جائے گی۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے اپناکرداراداکررہاہے، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ سرفہرست ممالک میں شامل ہے،موسمیاتی اڈاپٹیشن ایک بڑامسئلہ ہے،پاکستان نے نیشنل اڈاپٹیشن پلان لاگو کردیا ہے،نیشنل کلائیمٹ فنانس سٹریٹجی متعارف کرائی گئی ہے،باکو میں موسمیاتی تبدیلیوں کے وزارتی اجلاس میں اس حکمت عملی کو شیئر کیاگیا، ملک کے پائیدارترقی اوراستحکام کی راہ میں بڑھتی ہوئی آبادی اوران کاانتظام وانصرام اورموسمیاتی تبدیلیاں دوبڑے چیلنجز ہیں۔سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے عالمی ماحولیاتی عدالت کے قیام کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہندوکش ہمالیہ گلیشئرز کے دامن میں واقع ہے جو کہ خطرناک تیزی سے پگھل رہے ہیں اور دریائے سندھ کے لیے خطرہ بن رہے ہیں جو کہ پاکستانی زرعی نظام کی لائف لائن ہے اور ملک کو پانی کے سنگین بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ اینڈ ہیومینٹیرین کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ کا کہنا تھا کہ اس خطے سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے خطے کو کیا نقصانات بھگتنا پڑ رہے ہیں، غیر معمولی گرمی، شدید بارشیں، سیلاب، خشک سالی اور موسمی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔محمد یحییٰ نے کہا کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے، دنیا کے 20 امیر ترین ممالک کا کاربن کے اخراج میں 80 فیصد حصہ ہے۔عالمی بینک میں موسمیاتی تبدیلی کی عالمی ڈائریکٹر ویلری ہکی نے کانفرنس میں پیرس معاہدے کے تحت ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی پر این سی کیو جی کے ساتھ آنے میں بہت خوش ہیں۔عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 100 ارب ڈالر سے 300 ارب ڈالر تک منتقل ہونے ہیں، یہ بہت خطیر رقم لگتی ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سابق گورنر شمشاد اختر نے کہا کہ پاکستان کے موسمیاتی چیلنجز کے لیے 2050 تک سالانہ 40 سے 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر سلیم رضا نے اپنے خطاب میں اسکرین پر ایک تخمینہ دکھایا کہ آج کے مقابلے میں اگلے 5 سال میں نجی سرمایہ کاری میں کتنا اضافہ ہونا ہے، یہ بیرونی فنانس میں 15 سے 18 گنا اور اندرون ملک جمع کی گئی رقم میں 5 سے 7 گنا تک ہے۔لمز کے وائس چانسلر علی چیمہ نے گراف اور اعداد و شمار کے ساتھ ماحولیات کے بحران کے تاریخی ارتقا کے بارے میں بات کی۔ سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ۔ موسمیاتی تبدیلی عالمی سطح سے مقامی سطح تک جاتی ہے اور یہ کوئی سرحد نہیں جانتی۔پنجاب کی سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے ویڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس سے اپنے خطاب میں صوبے پنجاب کو درپیش اسموگ کے بحران پر اظہار خیال کیا۔انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں ماس ٹرانزٹ کو روایتی ایندھن سے الیکٹرک پر منتقل کیا جارہا ہے، صوبے بھر میں پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال پر پابندی عائد ہے اور تمام ادارے پلاسٹک کے تھیلوں سے متعلق متحرک ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب چاہتی ہیں کہ اسموگ پر بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کی کانفرنس ہو۔بھارت کی ڈائریکٹر جنرل، سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ سنیتا نارائن نے فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے مقامی حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے شہروں میں فضائی آلودگی کا مسئلہ اس وقت تک بڑھتا رہے گا جب تک کہ ہم ٹریفک، بھیڑ، فیکٹریوں میں کوئلہ جلانے کے استعمال اور اس سے پیدا ہونے والے کچرے کا مقامی حل تلاش نہیں کر لیتے۔وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائےموسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے عالمی حل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی حل کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کل 13,032 گلیشیئرز ہیں جو کہ قطبی خطے سے باہر سب سے بڑی تعداد ہے، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ اس سے برفانی جھیلوں کے سیلاب کے خطرات کیسے لاحق ہوتے ہیں جس سے لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔انہوں نے ترقی پذیر ممالک کو مل بیٹھ کر حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے، بہت سارے چیلنجز جاری رہیں گے۔ ہمال نیپال کے بانی اور ایڈیٹر کنک منی ڈکشٹ بریتھ نے گزشتہ سال شمالی ہندوستان میں شدید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ اور نیپال کے دریائے میلمچی میں 2021 کے سیلاب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آگے ایک ناقابل یقین بحران ہے جس کے اشارے ہمارے سامنے پہلے ہی موجود ہیں۔ اس بحران سے نمٹنے کے لئے ہم سب کو مل کر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔