گوادر شہر میں سیوریج سسٹم کا پروجیکٹ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے ، اس شاندار منصوبے کے تحت پہلے ایک ٹھیکیدار اپنی تمام توانائیاں لگا کر سیوریج کے لیے خندق کھودتا رہا ہے ، اور پھر دوسرا ٹھیکیدار نے ادارہ ترقیات گوادر کے حکام بالا کے کہنے پر اس خندق کو اتنی ہی محنت سے بھر دیتا ہے ، عوامی پیسوں کے ضیاع کی ایسی مثال شاید ہی کہیں اور دیکھنے کو ملے۔28 دسمبر کو میرین ڈرائیو سے فٹبال چوک تک جانے والی مصروف سڑک کے بیچوں بیچ صدف ہوٹل کے سامنے سیوریج لائن کےلئے ایک خندق کھودی گئی جو سو فٹ لمبی، چھ فٹ گہری اور ڈھائی تین فٹ چوڑی تھی ، ایکسکیویٹر کی گرجدار آوازیں، مٹی کے ٹیلے اور عوام کا احتجاج سبھی اس "پراجیکٹ” کی کامیابی کی کہانی سنا رہے تھے ، حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دوران کوئی انجینئر یا منصوبہ ساز وہاں نظر نہیں آیا ، شاید وہ خندق کی گہرائی ماپنے کے بجائے کسی ایئرکنڈیشنڈ دفتر میں چائے نوشی فرما رہے تھے ، گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے کاموں میں انجینئرز کی غیر موجودگی ایک معمول بن چکی ہے ، یا شاید انہوں نے سوچا ہو کہ سیوریج سسٹم کے لیے "خندق کھودنا اور بھرنا” کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، اور اس میں ان کی موجودگی غیر ضروری ہے ، ویسے بھی جب مقصد عوام کے پیسے کو زمین میں دفنانا ہو تو یہ کام کسی غیر تربیت یافتہ مزدور سے بھی کروایا جا سکتا ہے ، گوادر کے نام نہاد ترقیاتی منصوبے درحقیقت سیاسی رشوت اقربا پروری اور بھتہ خوری کے شاندار مظاہرے ہیں ، کوئی بھی منصوبہ وقت پر مکمل نہیں ہوتا اور ہر پروجیکٹ ایک نیا اسکینڈل بن کر سامنے آتا ہے ، عوام کے پیسے کو اس طرح ضائع کرنا شاید ایک منفرد فن ہے جس میں جی ڈی اے مہارت حاصل کر چکی ہے۔یہ خندق نما سیوریج سسٹم منصوبہ نہ صرف عوام کے لیے مشکلات کا سبب بنا بلکہ اہم راستے پر ٹریفک کی روانی بھی بری طرح متاثر ہوئی ، مقامی لوگ جنہیں پہلے ہی بنیادی سہولیات کے فقدان کا سامنا ہے، اب اس نئے تماشے پر سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔
گوادر کے عوام سوال کرتے ہیں کہ آخر کب تک ان کے ساتھ یہ مذاق جاری رہے گا؟ کیا جی ڈی اے اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لے گی، یا اس طرح کھودنا اور بھرائیاں کرنا مستقبل کے لیے ایک "ورثہ” بن جائیں گی؟گوادر کی ترقیاتی کہانی درحقیقت ایک سبق ہے کہ اگر عوامی وسائل کا صحیح استعمال نہ کیا جائے تو ایک خوبصورت شہر کو کیسے مذاق بنا دیا جا سکتا ہے۔ خندقیں کھودنے اور بھرنے کے اس کھیل میں عوام کے صبر کا پیمانہ کب لبریز ہوگا، یہ دیکھنا باقی ہے۔