کراچی (نمائندہ خصوصی) وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سال نو کی آمد کے پہلے دن ہی کراچی سیف سٹی پراجیکٹ سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے حکام کو ہدایت دی کہ فروری سے فینسی، جعلی اور مشکوک گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کی نشاندہی شروع کی جائے اور مزید کارروائی کے لیے متعلقہ پولیس کو رپورٹ کریں۔وزیراعلیٰ سندھ نے اس بات پر زور دیا کہ سیف سٹی اتھارٹی آئندہ ماہ سے گاڑیوں میں سفر کرنے والے یا سڑکوں پر چلنے والے مشکوک افراد کی شناخت کے لیے چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر ے تاکہ منصوبے کے مقاصد کی تکمیل یقینی ہوسکے۔اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ نے سندھ سیف سٹیز اتھارٹی کو حیدرآباد اور سکھر میں بھی سیف سٹی پراجیکٹ کے آغاز کی ہدایت کی۔ انہوں نے اتھارٹی کو پروجیکٹ کی لاگت کے تخمینے (PC-I) کی منظوری کے لیے محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ (P&D) کو جمع کرانے کی ہدایت دی۔بدھ کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار، چیف سیکرٹری آصف حیدر شاہ، انسپکٹر جنرل پولیس غلام نبی میمن سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔سندھ سیف سٹیز اتھارٹی (SSCA) کے ڈائریکٹر جنرل آصف اعجاز شیخ نے وزیر اعلیٰ سندھ کو منصوبے کی پیشرفت پر بریفنگ دی۔ کراچی سیف سٹی پروجیکٹ پانچ مراحل پر مشتمل ہے جس کی تخمینہ لاگت 34.95 بلین روپے ہے۔ جس میں مختلف ریزولوشن کے 12000 سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب شامل ہے اور 1,700 کلومیٹر رقبے پر 2,525 پول سائٹس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ 110 ایمرجنسی ریسپانس گاڑیاں بھی تعینات کی جائیں گی۔پہلے مرحلے میں 1,300 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں گے جن میں 1,044 نئے کیمرے اور 193 کلومیٹر کے فاصلے پرپہلے سےنصب 256 کیمروں کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ پولیس سائٹس کی 200 مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں اس وقت کام جاری ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ شہر میں 23 ایمرجنسی ریسپانس گاڑیاں تعینات کی جائیں گی جن میں سے پانچ ہائی پاور کیمروں سے لیس ہوں گی جو چہرے اور نمبر پلیٹ کی شناخت کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے اتھارٹی کو ہدایت کی کہ وہ 110 ایمرجنسی ریسپانس گاڑیوں کی خریداری کے عمل کو آگے بڑھائیں اور انہیں ضروری ٹیکنالوجی سے لیس کرکے شہر میں تعینات کریں ۔ وزیراعلیٰ سندھ کو یہ بھی بتایا گیا کہ ویڈیو سرویلنس سسٹم کی تنصیب کا عمل شروع ہو چکا ہے اور امیدہے کہ اگلے سال کے اختتام پر یہ فنکشنل ہوجائیں گے ۔ایس ایس سی اے کا ہیڈ کوارٹر ڈی ایچ اے میں قائم کردیا گیا ہے اور شاہراہ فیصل پر ہیڈ کوارٹر کی عمارت کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے۔ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ 300 پول سائٹس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کے ایم سی اور سول ایوی ایشن اتھارٹی سے رائٹ آف وے کا ضروری اجازت نامہ حاصل کر لیا گیا ہے۔ اس وقت کنٹونمنٹ بورڈز سے منظوری کا عمل جاری ہے۔ 300 پول سائٹس کا سروے مکمل ہو چکا ہے، 300 میں سے 200 کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ ان میں سے 198 پولیس انسٹالیشن مکمل ہو چکی ہیں، جن میں سے 33 اس وقت کام کر رہی ہیں۔پی ایس بوٹ بیسن میں فرسٹ پوائنٹ آف پریزنس (پی او پی) سائٹ کی بحالی کا کام مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ دیگر تھانوں میں یہ عمل بہت جلد شروع کیاجائے گا۔ ان پی او پی سائٹس میں آرٹلری مین پولیس اسٹیشن، آرام باغ، بوٹ بیسن، سول لائنز، کلفٹن، فریئر، صدر، پریڈی، کھارادر، عزیز بھٹی، بریگیڈ، بہادر آباد، فیروز آباد، شاہراہ فیصل، ٹیپو سلطان، ایئرپورٹ، ملیر سٹی اور ماڈل کالونی کے مقامات شامل ہیں۔وزیر اعلیٰ سندھ نے انسپکٹر جنرل آف پولیس کو ہدایت کی کہ وہ سیف سٹی پراجیکٹ کی پیش رفت کی ذاتی طور پر نگرانی کریں تاکہ دوسرے مرحلے کو آسانی سے شروع کیا جا سکے۔