انبیا ئے کرام کی سر زمین فلسطین پر دہشت گردی کے عالمی چمپئن امریکا کی سرپرستی میں اسرائیل کی دہشت گردی ساڑھے چارسو سے زائد دن سے جاری ہے۔ اسرائیل کی غزہ میں جنگ ایک مجرمانہ جارحیت ہے، جس میں بچوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے، عورتوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کی مسلسل بمباری نے پوری غزہ کی پٹی کو ملبے کا ڈھیر بنا دیاہے،اسرائیلی فورسزنے نہتے فلسطینیوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرکے بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے غزہ میں اسرائیل نے انسانی جسم کو تحلیل کر کے بخارات بنانے والے ہتھیار چلائے ہیں۔ اسرائیل نہتے فلسطینی پناہ گزینوں پر خطرناک کیمیکل اور مواد والے بم برسا رہا ہے جس کے ہولناک اثرات سامنے آ رہے ہیں۔غزہ میں فلسطینی عوام کی نسل کُشی پر پوری دنیا کے باضمیر انسان سڑکوں پر اور بے ضمیر حکمران محلوں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ امریکا اور اسرائیل کے ایجنٹ یہ حکمران اپنا فرض ادا کرنے کے بجائے اسرائیلی وحشی حملوں اور انسانی نسل کشی کی حمایت میں مصروف ہیں۔ ان کے اپنے ملکوں میں عوام کے لاکھوں کے جلوس اور مظاہرے ہوئے ہیں لیکن یہ ان فلسطینیوں کیلئے ایک لفظ منہ سے نہ نکال سکے۔ مغربی ممالک کے جن لوگوں کو ہم مسلمان کافر قرار دیتے ہیں وہ ہمارے مسلمان حکمرانوں سے اچھے ثابت ہوئے۔ انہوں نے کھل کر اسرائیلی مظالم کی مذمت کی اور اسے نسل کشی قرار دیا جبکہ امریکا، فرانس اوربرطانیہ سمیت دیگرمغربی ممالک کے حکمران اسے اسرائیل کا حق دفاع قرار دے رہے ہیں، لیکن کسی کے پاس جواب نہیں ہے کہ ایک اسرائیلی کے بدلے سینکڑوں فلسطینی شہید کیے جارہے ہیں، کاغذوں پر اتنا بڑا جھوٹ میڈیا پر جھوٹ حکمرانوں کے جھوٹے چہروں سے نقاب اُتر چکی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ افسوسناک، بے حسی اور غیرت سے عاری رویہ تمام مسلم حکمرانوں کا ہے۔یہ اپنے ملک کے عوام کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
عالمی دہشت گرد اسرائیل نے فلسطین کو تباہ اور برباد کرنے کے بعد دریائے فرات سے بحر احمر تک گریٹر اسرائیل کا قیام کے منصوبے کے تحت مشرقی وسطیٰ میں اپنی ریاستی دہشت گردی کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے لبنان،ایران اور شام پر بمباری کی ہے،اسرائیل کے دانشوروں نے چند سو برس قبل دنیا پر قبضہ کرنے کا باقاعدہ روڈ میپ بنایااس کی تحریری دستاویزات 1897ء میں ایک خفیہ ایجنٹ کے ذریعے دنیا کے سامنے آئیں اور اسرائیل کے قیام سے لیکر آج تک معاملات منصوبے کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں، اسرائیل گزشتہ برس ستمبر میں لبنان کے مختلف شہروں میں پیجرز، واکی ٹاکی،سمارٹ فونز، لیپ ٹاپ، ریڈیو ڈیوائسز اور سولر پینلز میں نصب بارودی مواد کے ذریعے دھماکے کرکے ڈیجیٹل دہشت گردی بھی متعارف کروا چکا ہے۔
فلسطین پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت سے مغرب کا دوہرا معیار اور مسلم دشمنی کھل کر سامنے آگئی ہے، دکھ کی بات یہ ہے کہ آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) اور عرب لیگ بھی منہ میں دہی جمائے بیٹھے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے سعودی عرب کی سربراہی میں قائم ہونے والے 39 اسلامی ممالک کی اتحادی فوج اور اس کے سربراہ بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔ غزہ میں ایک جانب آگ و خون کی بارش ہے تو دوسری خوراک و ادویات کی شدید قلب، غزہ کے عوام کو امداد کی ترسیل کا واحد راستہ رفح کراسنگ ہے مگر یہاں بھی مصر کے غاصب صدر سیسی مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے مظلوم عوام کی امیدوں، آرزوں، احساسات و جذبات کی ترجمانی اور فلسطینیوں کے لیے دنیا بھر سے آئی امداد کی بروقت اور باآسانی ترسیل کو آسان بنانے کے بجائے امریکا اور اسرائیل کی خواہشوں کا احترام کر رہے ہیں، دوسری جانب سعودی عرب نے اس پوری واقعے پر اپنی آنکھیں کچھ اس طرح بند کی ہوئی ہیں کہ جیسے ان کے پڑوس میں کچھ ہوا ہی نہ ہو، گزشتہ دنوں دارالحکومت ریاض میں کنسرٹس پارٹی اور فیشن شو کا انعقاد سعودی حکمرانوں کی بے حسی و بزدلی کا ثبوت ہے۔ اس پوری صورتحال میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی نگاہیں ترکی پر جمی تھیں کہ وہ کوئی کردار ادا کرے گا، مگر بدقسمتی سے ترکی نے اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی امید کی جارہی تھی۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سمیت تمام مسلم حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آج اگر انہوں نے نہتے، بے بس و بے کس فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند نہ کی اور اپنا وہ کردار ادا نہ کیا جوفی الواقع انہیں کرنا چاہیے تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی، جس طرح ماضی میں مظلوموں کی حمایت سے دست کشت رہنے والے حکمران تاریخ کے کوڑے دان میں ہیں یہ بھی قصہ پارینہ بن جائیں گے اور تاریخ میں ظالموں اور غاصبوں سے نبرد آزما مٹھی بھر جانبازوں اور جانثاروں کی ہمت وشجاعت کو سنہرے حرف میں لکھا جائے گا۔
غزہ پر اسرائیل کی دہشت گردی کے ساڑھے چارسوسے زائددن ہوچکے ہیں لیکن اب تک ”امن“ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، لفظ امن کو قوسین کا ہالہ اس لیے پہنایا ہے کہ اب تک اس سمت اٹھائے جانے والے تمام قدم اور ان سے پھوٹنے والے امکانات قیدیوں کی رہائی کیلئے وقتی جنگ بندی یا وحشیانہ بمباری میں عارضی وقفے کی نشاندہی کررہے ہیں۔ علاقے میں حقیقی امن کیلئے کوئی سنجیدہ ہے اور نہ ”مہذب دنیا“ اس کی ضرورت محسوس کررہی ہے۔غزہ انسانیت کے ماتھے پر لگا داغ ہے۔فلسطین کا مسئلہ محض فلسطینیوں کا نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ اور دنیا کے انصاف پسند لوگوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا وقت آ گیا ہے۔ یہ صدی اس المیے کیلئے یاد رکھی جائے گی کہ جہاں عالمی ادارے اور حکومتیں مظلوموں کا ساتھ دینے میں ناکام ہیں۔ یہ وقت ہے کہ امت مسلمہ اور دنیا کے انصاف پسند لوگ مل کر فلسطینی عوام کے حق میں کھڑے ہوں اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلئے مؤثر اقدامات کریں۔ بصورت دیگر، یہ دنیا نہ صرف مظلوموں کے خون سے سرخ ہوتی جائے گی بلکہ انسانیت بھی اپنے وجود کا جواز کھو دے گی۔