اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی)اہلسنت والجماعت ضلع کرم کے عمائدین، علماء، نوجوانوں نے بگن پر لشکر کشی کے حوالے سے مفتی شاہنواز، ڈاکٹر عبدالکریم، خواجہ ناہید، کوثر عالم، شاہد اقبال اور دیگر نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 12 اکتوبر کو اپر کرم کونج علیزئی میں اہلسنت مقبل قوم کے کنوائے پر حملہ ہوا جس میں خواتین، بچے علماء کو بے دردی سے مار گیا جس میں حملہ آور بھی معلوم تھے اور انتظامیہ نے ان کا لسٹ بھی انجمن حسینیہ کے حوالے کیا مگر بجائے ان مجرموں کو حوالے کے ان کی پشت پناہی شروع کی اور اس کے بعد ضلع کرم میں حالات خراب ہوگئے اور 21 اکتوبر کو لوئر کرم میں مشترکہ کنوائے پر حملہ ہوا جس میں دونوں فریق کے 42 افراد مارے گئے۔ جس کے اگلے روز 22 نومبر کو بگن پر ہزاروں کی تعداد میں دہشتگردوں نے حملہ کیا جس میں 700 دکانیں، 1500 گھر جلائے گئے، جس میں پشتون تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کی بے حرمتی کی گئی ان کو کئی دن تک قید میں رکھا گیا جن میں دو خاتون ڈاکٹر بھی تھیں، ڈاکٹرز، چوکیدار، بوڑھے، معذور افراد سمیت 30 افراد کو زندہ جلایا گیا ، لوگوں کے سر کاٹے گئے جن کو پاڑہ چنار میں سیکورٹی فورسز کے ان ہی کے ہاتھوں جلائے گئے چیک پوسٹ پر نمائش کیلئے رکھیں گئ۔ بگن بازار میں کالعدم تنظیم کے کمانڈرز جن پر ایف آئی آرز درج ہیں انہوں نے بگن کو جلاتے ہوئے ویڈیوز بنائے جو سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ بگن بازار میں تمام دکانیں، نیشنل بینک، نادرہ، تین سکول محکمہ تعلیم سمیت مختلف ۔نجی اداروں کے دفاتر کولوٹنے کے بعد جلائے گئے، بگن اہلسنت اور علیزئی اہلتشیع کے مابین امن معاہدہ تھا اور انجمن حسینیہ کے سیکرٹری جلال بنگش کے مطابق کنوائے پر حملہ آور ان کو معلوم ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے بگن پر چڑھائی کرائی، صرف یہ ظلم نہ تھا بلکہ بار بار لشکر کشی کی کوشش کرتے آرہے ہیں علاقے سے دس ہزار سے زیادہ لوگوں نے علاقے میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے نکل مکانی کی، زینبیون نے اس سے ایک دن پہلے پارہ چنار میں چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس میں پاکستان کا جھنڈا اتار کر زینبیون کا جھنڈا لہریا، ابھی بھی زینبیون کے کمانڈرز پھرتے رہتے ہیں اس کے باوجود پاڑہ چنار والے اپنے آپ کو مظلوم ثابت کررہے ہیں، جبکہ اپر کرم میں اہلسنت کے لوگ دو ماہ سے محصور ہیں جہاں زندگی گزارنے کے سہولیات نہیں ہے۔ بگن والوں کے گھر جلانے کے بعد کھلے آسمان تلے اس شدید سردی میں رہتے ہیں بگن پر اتنے ظلم کے باوجود بھی ایک آنے کا امداد نہیں ملا ہے، لوگوں کے پاس نہ راشن ہے نہ سر چھپانے کیلئے چادر ہے۔ ظلم بگن پر ہوا ہے لوگ بگن کے متاثرین بن گئے لیکن حکومت اور این جی اوز کا ایک روپے کا مدد نہیں ہوا ہے لیکن اس کے باوجود امداد پارہ چنار کو ہلی کاپٹرز میں جا سکتا ہے لیکن بگن والوں کو نہیں جاسکتا۔اس کے علاوہ اپر کرم میں تری منگل، بوشہرہ، مقبل گیدو سپینہ شگہ کوتری متہ سنگر کے علاقے اردگرد اہل تشیع نے محصور بنائے ہیں۔جن کے ساتھ کوئی مدد نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کو جانے دیا جارہا حکومت کے جانب سے کوہاٹ میں گرینڈ جرگہ میں ضلع کرم میں اسلحہ اور دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ ہوا جس پر اہلسنت نے بلاتفریق رضامندی ظاہر کی اور احکومت کی ہر بات ماننے کو تیار ہوئے لیکن مخالف فریق نے دستخط کرنے سے انکار کیا اور اسلحہ جمع نہ کرنے کا اعلان کیا، اب انہوں نے اسلحے کے خلاف آپریشن کرنے کے خلاف ملک بھر میں دھرنے شروع کی، پاڑہ چنار میں زینبیون کے ساتھ بڑے پیمانے پر اسلحہ موجود ہے اس لئے یہ فوج کی آپریشن کے خلاف دھرنے دے رہے ہیں۔ نہ ایپکس کمیٹی کے فیصلے کو مانتے ہیں اور پارہ چنار خصوصا زینبیون اس کو ماننے کو تیار نہیں۔ پاڑہ چنار سٹیٹ کے اندر سٹیٹ بنا ہوا ہے جو پاک فوج کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں فوج کی تلاشی لے رہے ہیں۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ایپکس کمیٹی کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے۔ضلع کرم میں وہ تکلیف ہوئے ہیں جو فلسطین میں بھی نہیں ہوا ہے، ضلع کرم میں زینبیون نے جو ظلم کیا وہ میڈیا پر نہیں ہے ہم میڈیا کو دعوت دیتے ہیں کہ ضلع کرم بگن کو آئے اور آپ خود زینبیون کے کرائے گئے ظلم کو دیکھ لے۔ مری معاہدہ میں صرف پاڑہ چنار کی روڈ کو کھولا ہے باقی کوئی عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ کرم میں تب تک امن نہیں آسکتا جب تک پاڑہ چنار میں اسلحے کے خلاف آپریشن نہ کیا جائے، اگر اسلحے کے خلاف آپریشن نہیں کیا جاتا تب تک سڑک نہ کنوائی کے لئے محفوظ ہے نہ کسی اور کیلئے محفوظ ہے۔