راولپنڈی (نمائندہ خصوصی):پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ انصاف کا عمل 9 مئی کے اصل گھنائونے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے تک چلے گا، 2021ء میں کس کی مرضی تھی کہ یہ مسئلہ بات چیت سے حل کیا جائے؟ ایک شخص کی غلطی کی قیمت قوم نے اپنے خون سے ادا کی، فورسز غلط فیصلوں کے دھبے اپنے خون سے دھو رہی ہیں۔ وہ جمعہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پچھلے 5 سال کے مقابلے میں اس سال سب سے زیادہ دہشت گرد مارے گئے، افواج پاکستان نے دہشت گردی کے کئی منصوبوں کو کامیابی سے ناکام بنایا، افواج پاکستان نے آپریشنز میں دہشت گردوں سے بھاری مقدار میں اسلحہ بھی برآمد کیا۔انہوں نے بتایا کہ سال 2024ء میں دہشت گردوں کے کئی بڑے ناموں سمیت 925 دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا گیا اور آپریشنز میں 73 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو مارا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ 2 خود کش بمباروں کو حراست میں لیا گیا جبکہ 14 مطلوب دہشت گردوں نے ہتھیار ڈالے، 383 افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں کیں، پاکستان کی تمام تر کوشش کے باوجود افغان سرزمین سے دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں، دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان تک جاتے ہیں، دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا ظلم و ستم دنیا کے سامنے ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے، ہم مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ بھارت دیگر ممالک میں سکھوں کے قتل میں بھی ملوث ہے، بھارت میں سازش کے تحت اقلیتوں کی نسل کشی کی جا رہی ہےہمارا اصولی موقف ہے کہ مقبوضہ کشمیرکے مظلوم عوام کی قانونی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے ناسور کے خلاف پوری قوم نے اداروں کے ساتھ مل کر لڑنا ہے کیونکہ محفوظ پاکستان ہی مضبوط پاکستان ہے، پاکستان میں دہشت گردی، بھتہ خوری اور سمگلنگ کا اربوں روپے کا سپیکٹرم موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اس وقت ختم ہو گی جب انصاف، تعلیم، صحت اور گڈ گورننس ہو گی، دہشت گردی اس وقت ختم ہو گی جب دہشت گردی اور جرائم کا گٹھ جوڑ ختم ہوگا، پاکستان میں اربوں روپے کا غیر قانونی سپیکٹرم ہے جس کا فیک نیوز بھی حصہ ہے، یہ فیک نیوز سپیکٹرم کو توڑنے کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے، اشرافیہ بھی غیر قانونی سپیکٹرم کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ سکیورٹی ادارے اس غیر قانونی سپیکٹرم کے خلاف کھڑے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ 8 لاکھ سے زائد غیرقانونی مقیم افغانوں کو واپس بھجوایا جا چکا ہے، ملک کی ڈیجیٹل سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیںاحساس محرومی کا جھوٹا، مصنوعی بیانیہ بنایا جاتا ہے، بلوچستان میں احساس محرومی کے جھوٹے بیانیے کا پردہ چاک ہو رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دو سال سے افغان عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت اور رابطہ جاری ہے ، ہم ان سے ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک برادر ملک ہیں، افغان حکومت کو باور کرایا جاتا ہے کہ فتنہ الخوارج اور سہولت کاری کو روکیں، واضح پالیسی عمل میں ہے، افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں، ڈیجیٹل سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے لیگل اور ٹیکنیکل ایکشن لیے جا رہے ہیں۔سیاسی جماعتوں کے مذاکرات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاک فوج کا ہر حکومت کے ساتھ سرکاری اور پیشہ وارانہ تعلق ہوتا ہے، اس تعلق کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں، تمام سیاسی جماعتیں اور لیڈرز قابل احترام ہیں، خوش آئند ہےکہ سیاستدان مل بیٹھ کر اپنے معاملات حل کریں نہ کہ انتشاری انداز اپنایا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت قابل احترام ہیںکسی سیاسی لیڈر کی اقتدار کی خواہش پاکستان سے بڑھ کر نہیں۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے پیچھے مربوط سازش اور منصوبہ بندی تھی، اس منصوبہ بندی اور سازش میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے، ملٹری ٹرائل میں ملزم کو قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں، فیض حمید کو یہ حق حاصل بھی ہے، کوئی بھی افسر سیاست کو ریاست پر مقدم رکھے گا تو جواب دینا پڑے گا، نومبر 2024ء میں بھی 9 مئی 2024ء کا تسلسل دیکھا۔ایک سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ 9 مئی افواج پاکستان کا نہیں عوام پاکستان کا مقدمہ ہے، دہشت گردی کے مسئلے پر مزید کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ نومبر میں ہونے والے دھرنے میں فوج کے کردار اور ہونے والی اموات سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یکم دسمبر کو وزارت داخلہ نے اس حوالے سے مفصل اعلامیہ جاری کیا تھا، اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ فوج کو پرتشدد ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے تعینات نہیں کیا گیا تھافوج کی تعیناتی صرف ریڈ زون تک محدود تھی جبکہ سیاسی قیادت کے مسلح گارڈ اور ہجوم میں شامل لوگوں کے پاس آتشی اسلحہ تھا، مظاہرین کے پاس اسلحہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر دیکھا بھی، بے معنی ہنگامہ آرائی سے توجہ ہٹانے کے لیے فیک نیوز کا سہارا لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ فوج کسی خاص سیاسی جماعت یا نظریہ کی نہ مخالف ہے نا حمایتی، 26 نومبر کی سازش کے پیچھے سوچ سیاسی دہشت گردی کی ہے، 26 نومبر کو ہزاروں کارکنوں کی شہادت کا جھوٹ پھیلایا گیا، ان کو اعتماد ہے کہ یہ کوئی بھی جھوٹ بیچ سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں سکیورٹی پر مامور اہلکار کو آتشی اسلحہ نہیں دیا گیا، جب سیاسی قیادت وہاں سے بھاگی تو سوشل میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈا دیا گیا، قانون اجازت دیتا ہے کہ آپ پرامن احتجاج کریں لیکن آپ پولیس رینجرز پر حملے کرتے ہیں تو یہ سیاسی دہشت گردی ہے، آپ مسلح جتھے کو لے کر وفاق پر حملہ آور ہو جائیں، فیک نیوز اور جھوٹے پروپیگنڈا کے باعث یہ ہوتا ہے، انھوں نے 26 نومبر کو بیانیہ دیا کہ ہزاروں افراد مارے گئے۔ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ انتشاری سیاست کا کنٹرول اندرون ملک سیاسی لیڈرز کے پاس نہیں، ملک سے باہر افراد کے پاس اس انتشاری سیاست کا کنٹرول ہے، کیسے انسانی حقوق کی تنظیمیں دنیا سے سامنے آتی ہیں، ان تنظیموں کو غزہ فلسطین نظر نہیں آئیں گے، انسانی حقوق پر جو تنظیمیں واویلا مچا رہی ہیں، وہ ایسی مہم غزہ اور کشمیر پر چلائیں۔افغانستان کے ساتھ تعلقات کی پالیسی سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں افغانستان خوارجیوں کو پاکستان پر فوقیت نہ دے، دوست ممالک کے ذریعے بھی افغانستان سے بات چیت ہو رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چند دن قبل 16 ایف سی جوان شہید ہوئے، کیا ان کے خون کی کوئی قیمت نہیں؟، فتنہ خوارج کی کمر ٹوٹ گئی تھی تو کس کے فیصلے پر بات جیت کرکے انھیں سیٹل کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ 2021ء میں کس کی ضد تھی کہ بات چیت کرکے ان کو سیٹل کیا جائے، بات چیت کی اس ضد کی قیمت خیبرپختونخوا ادا کر رہا ہے، بجائے اس پر بیانیہ بنانے کے خیبرپختونخوا میں گڈ گورننس پر توجہ دیںایسے ہر مسئلہ کا حل بات چیت سے ہوتا تو دنیا میں جنگ اور غزاوت نہ ہوتے، ایسے رویے کی قیمت پوری قوم دیتی ہے، بجائے اس پر بیانہ بنائیں، سیاست کریں، گڈ گورننس کیوں نہ کریں، انہوں نے کیونکہ گڈ گورننس پر توجہ نہیں دینی اس لیے اس پر سیاست کرنی ہے۔سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سے متعلق سوال پر ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا پاک فوج کا خود احتسابی کا عمل بہت شفاف اور جامع ہوتا ہے، پاک فوج میں کوئی بھی افسر اور جوان قانون سے بالاتر نہیں ہوتا، کوئی بھی افسر سیاست کو ریاست پر مقدم رکھے گا تو اسے جواب دینا پڑے گا، فیض حمید کا معاملہ بہت حساس ہے اور یہ معاملہ ابھی عدالت میں زیر سماعت ہے، اس پر جو بھی تفصیلات ہوں گی وہ شیئر کر دی جائیں گی، لہذا اس معاملے پر زیادہ تبصروں سے گریز کیا جائے.