اسلام آباد(نمائندہ خصوصی):پاکستان نے کہا ہے کہ افغانستان سال رواں کے دوران سفارتی رسائی کے ایجنڈے میں ایک ترجیح رہا، افغانستان کے ساتھ ہماری مصروفیات میں تجارتی روابط اور عوام سے عوام کے روابط کو ترجیح دی گئی، سال کے دوران افغانستان کے ساتھ سرحد پر کچھ واقعات ہوئے ہیں۔ یہ بات ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو یہاں پریس بریفنگ میں بتائی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور پناہ گاہوں پر پاکستان کی بڑی تشویش ہمارے دوطرفہ ایجنڈے میں سرفہرست رہی۔انہوں نے کہا کہ ہم ترجیحی امور پر افغان حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور تجارت، ٹرانزٹ ٹریڈ، سیکورٹی اور بارڈر مینجمنٹ میں تعاون کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کی صورتحال پر علاقائی نقطہ نظر کی مضبوطی سے پیروی کے طور پر افغانستان میں امن کو فروغ دینے کے لیے میٹنگز اور میکنزم میں شرکت کی جن کا مقصد نومبر میں ماسکو میں ہونے والے ماسکو فارمیٹ مذاکرات اور چین، ایران کے وزرائے خارجہ کے تیسرے چار فریقی اجلاس میں شرکت شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور روس۔ وزراءنے افغانستان کی قومی خودمختاری، سیاسی آزادی، اتحاد اور علاقائی سالمیت کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔ نہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکی نے تجارت، سرمایہ کاری، دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں باہمی فائدہ مند تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا، جولائی میں قازقستان کے شہر آستانہ میں پہلی پاکستان۔ترکی۔آذربائیجان سہ فریقی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی۔ترجمان نے کہا کہ آذربائیجان، تاجکستان اور ترکمانستان کے ساتھ اعلیٰ سطحی مصروفیات کے دوران، توانائی، ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر میں علاقائی روابط اور تعاون کو بڑھانے کے لیے اہم مفاہمت طے پاگئیں جبکہ ای سی او کے تناظر میں ان ممالک کے ساتھ ہمارا تعاون بھی جاری رہے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے دوطرفہ افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ بات چیت جاری رکھی۔ ترجمان نے کہا کہ امریکہ پاکستانی مصنوعات کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے، دونوں ممالک تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، صحت، تعلیم، زراعت، موسمیاتی تبدیلی اور انسداد دہشت گردی پر ٹھوس مفاہمت پر پہنچے ہیں۔