اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور رہنمائوں نے ظرف کے ساتھ سیاسی انتقام کا مقابلہ کیا، پی ٹی آئی والوں کی یادداشت بہت کمزور ہے، انہوں نے دھرنے اور احتجاج کے ذریعے ملک میں عدم استحکام کی متعدد کوششیں کیں، کنٹینر پر کھڑے ہو کر بدتہذیبی، تشدد، احتجاج اور انتشار ان کی تاریخ ہے، اسلام آباد میں ناکام احتجاج کے بعد تحریک انصاف نے جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لیا، حکومت کی ٹھوس پالیسیوں کی وجہ سے ملک ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن ہے، دیر نہیں ہوئی، ملکی ترقی اور خوشحالی کے لئے مل کر آگے بڑھنا ہےمنگل کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت نے رواداری اور بات چیت کے حوالے سے مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے، یہ ایوان جمہوری روایات سمیت وضع داری، رواداری و تحمل کا بھی امین ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی وضع داری و رواداری پر سمجھوتہ نہیں کیا، ہم پرتشدد سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔کبھی کسی کو یہ نہیں کہا کہ یہ دشمن ہے، اس کی خوشی غمی میں شریک نہیں ہونا۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی 2013ء کے الیکشن میں لفٹر سے گرے تو اس وقت ہماری انتخابی مہم چل رہی تھی، بانی چیئرمین پی ٹی آئی ہمارے سیاسی مخالف تھے، ہمیں ان سے سو اختلافات تھے لیکن محمد نواز شریف نے پارٹی اجلاس بلایا اور اپنے تمام رفقاءکو بلا کر اپنی الیکشن کمپین معطل کرنے کا اعلان کیا، پارٹی کی پوری سینئر لیڈر شپ نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق شوکت خان ہسپتال گئے، بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی تیمار داری کی، ان کے ڈاکٹر سے ملے اور ایک خیر سگالی کا پیغام دیا کہ ہماری آپ سے سیاسی مخالفت ہے، ذاتی دشمنی نہیں۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ مخالف سے مخالفت کرنے کا مزہ تب آتا ہے جب وہ میدان میں کھڑا ہو۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن ختم ہونے کے بعد نواز شریف بیرون ملک یا اپنے حلقے میں نہیں گئے بلکہ وہ سب سے پہلے بنی گالہ گئے اور بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں اس ملک کی معاشی بہتری میں اپنا کردار ادا کریں، اس ملک کے عام آدمی کا مسئلہ غربت، مہنگائی ہے، اسے حل کرنا ہمارا فرض ہے، آئیے اس ملک کے مفاد اور عوام کی خاطر مل جل کر آگے چلیں لیکن تحریک انصاف نے ہماری اس کاوش اور دانشمندی کو ہماری کمزوری سمجھا۔انہوں نے یہ بیانیہ بنایا کہ یہ ہمارے مخالفین ہیں، ان کی خوشی غمی میں شرکت نہیں کرنی، یہ لوگ کنٹینر سے صدا لگاتے تھے کہ آئو حملہ کر دو، ان کے ہاں چور ڈاکو کی گردان تھی کیا ہم اس زبان میں جواب نہیں دے سکتے تھے؟ ہمیں ہمارے قائد نواز شریف نے منع کیا تھا کہ وہ کنٹینر سے جو مرضی کہیں، ہم نے جواب نہیں دینا۔ ہمیں خصوصی طور پر منع کیا گیا کہ لاس اینجلس کورٹ کی ججمنٹ کا حوالہ کسی ٹاک شو میں نہیں دینا، نواز شریف نے ہمیں اخلاق کے دائرے میں رہ کر تنقید کرنے کی تلقین کی لیکن کنٹینر کے اوپر سے روز گالم گلوچ کی سیاست کی جاتی تھی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے چارٹر آف ڈیموکریسی کیا، تلخیوں کو بھی بھلا دیا لیکن ہم نے کبھی یہ ماحول نہیں دیکھا تھا کہ چور ڈاکو، غدار قرار دیا جائے، ایوان میں تقریر ہوتی تھی اور ایوان میں ہی تنقید ہوتی تھی، سیاسی مظاہرے اور جلسے ہوتے تھے، میاں نواز شریف نے اس ملک میں ٹرین مارچ بھی کیا، بڑے بڑے جلسے بھی کئے مگر کبھی کسی کو ”تو“ کر کے نہیں بلایا، بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی خان صاحب کہہ کر بلاتے تھے۔ وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ تحریک انصاف کے لیڈرز گولیوں کی بات کرتے ہیں، کیا آپ نے ساہیوال کے ان بچوں سے جاکر تعزیت کی جن کے ماں باپ کو دن دیہاڑے ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیا گیا؟ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے خطاب کے دوران ملتان کے قاسم باغ جلسہ میں بھگدڑ مچنے سے تحریک انصاف کے آٹھ سے دس کارکن وفات پا گئے تھے، لوگوں نے وہاں پر دہائیاں دیں کہ لوگ مر گئے ہیں لیکن بانی چیئرمین پی ٹی آئی تقریر کرتے رہےکیا ان لوگوں کے گھر جاکر آپ نے تعزیت کی؟ ان کو کوئی پیغام دیا کہ آپ کی موت ہماری وجہ سے اور ہمارے جلسہ میں ہوئی ہے؟ ایسے ان گنت واقعات ہیں جو آپ کے دور میں ہوئے، انہیں بیان کرنا شروع کر دیں تو رات ہو جائے واقعات ختم نہ ہوں گے۔ وفاقی وزیر عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ کیا اموات کا جھوٹا بیانیہ ہم نے بنایا تھا؟ کیا سوشل میڈیا کے اوپر علیمہ خان نے بیرسٹر گوہر سے گلہ نہیں کیا کہ آپ نے 12اموات کیوں کہیں؟ کوئی 1200 کہہ رہا ہے کوئی 1600 کہہ رہا ہے،کوئی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال سے اسلام آباد کی پوری سڑک کو خون میں لت پت دکھا رہا ہے، اگر آپ سچے تھے تو آپ کے رہنما مختلف اعداد و شمار کیوں دیتے رہے؟ اگر آپ سچے تھے تو پوری پارٹی ایک بات کرتی، یہ نہ ہوتا کہ آپ کے لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بولتے۔ انہوں نے کہا کہ مائوں، بہنوں، بیٹیوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی روایت بھی بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے ڈالی، رانا ثناءاللہ جب جیل میں تھے، انہوں نے نہ کبھی تقاضا کیا نہ کوئی ڈیمانڈ رکھی، ان کی دوائی تک جیل میں پہنچانے سے منع کیا گیا، مریم نواز کو والد کے سامنے گرفتار کرنے کا مقصد کیا تھا؟ جہانگیر ترین کی بچیوں پر پرچے کس نے دیئے؟ علیم خان کی بیگم کو ڈیڑھ گھنٹے ویٹنگ روم میں بٹھایا گیا،ہمارے ساتھ آپ نے جو کیا سو کیا لیکن آپ نے اپنے لوگوں کو بھی نہیں بخشا، عثمان بزدار کے والد سردار فتح محمد بزدار ہماری پارٹی میں بھی رہے ہیں، آپ نے ان کی خاطر پورے پنجاب کا حلیہ بگاڑ دیا، کسی پر ہیروئن ڈالی، کسی کی بچی پر پرچے دیئے، کسی کے گھر اینٹی کرپشن کی ریڈ کروائی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے بڑے بزرگوں نے پاکستان بنانے میں کردار ادا کیا ہے، ہمارے خون میں پاکستانیت ہے، ہم نے کہیں نہیں جانا، شہزاد اکبر یا شہباز گل کبھی یہاں بیٹھتے تھے،آپ کو غلط مشورے دیتے تھے ، ہم آپ سے اس وقت بھی کہتے تھے کہ آپ یہاں بیٹھے ہوں گے اور یہ بھاگ جائیں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ان کی سیاست میں تکبر و غرور تھا، ان کے دور میں اپوزیشن کی پوری فرنٹ لائن خالی تھی، ایک وقت ایسا آیا کہ سارے جیلوں کے اندر تھے۔ وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ ہمارے پاس نہ تو شہزاد اکبر کی سیٹ پر کوئی مشیر احتساب ہے نہ وزیراعظم ہاﺅس سے کوئی ڈائریکشن جاری ہوتی ہے، ایف آئی اے اور نیب قواعد و ضوابط کے مطابق اپنی کارروائی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا فوکس معیشت پر ہے، آج شرح سود 13 فیصد پر آ گئی ہے، مہنگائی 4 فیصد پر ہے، ترسیلات زر 8.8 ارب ڈالر ہو گئی ہیں،زرمبادلہ کے ذخائر 12 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، معیشت درست ٹریک پر چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے جھوٹا بیانیہ بنایا، حقائق مسخ کئے۔ انہوں نے کہا کہ وکلاءتحریک میں ہم نے قربانیاں دیں، سڑکوں پر ایک سال تک جدوجہد کی، ہم چاہتے تھے کہ ملک کا نظام بہتر ہو۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے پاس جیسے ہی اقتدار آیا انہوں نے آنکھیں پھیر لیں، اپنے سیاسی مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا۔ یہ ہمیں کمزور سمجھتے رہے، ہم نے پھر بھی تحمل اور برداشت سے سیاست کی،یہ نہ بھولیں آپ کا ماضی کیا ہے اور ہمارا کیا ہے، شیر افضل مروت نے اچھی بات کی ہے، ماحول کو بہتری کی طرف لے کر جائیں۔ ابھی بھی وقت ہے، ہوش کے ناخن لیں، مل بیٹھ کر ملک کی بہتری کے لئے کام کریں، ابھی دیر نہیں ہوئی، اقتصادی ترقی کے سفر میں اپنا حصہ ڈالیں، آپ بھی اتنے پاکستانی ہیں جتنے ہم ہیں، اگر آپ جھوٹے بیانیے کو لے کر چلیں گے اور اسے انتقام کی سیاست کی نظر سے دیکھیں گے تو پھر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔