کراچی(رپورٹ۔اسلم شاہ)کراچی سسٹم کے بااثر افسران کا اچانک تبادلہ معمہ بن گیا،بعض روپوش ہو گئے،چند بیرون ملک فرار ہونے کی تیاریاں کر رہے ہیں ،کیا کروڑوں بلکہ اربوں روپے مالیت جمع کرنے والے سسٹم کا سندھ کے محکموں سے خاتمہ ممکن ہوگا۔ قیاس آرائیاں عروج پر ہیں۔۔۔؟سسٹم کے بعض کردار کام لیکر خاموشی سے گمنام ہوگئے ہیں،اچانک سسٹم کے نام پر کما کردینے والے افسران کے تبادلے سے خوف و ہراس کی فضاء پیدا ہوگئی ہے۔کیا وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کی نگرانی میں محکمہ فنانس اور منصوبہ بندی و ترقیات میں گذشتہ 16 سال سے جاری ہونے والے سسٹم کا خاتمہ ممکن ہے۔۔۔؟پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام سے بیرون ملک امریکہ و کینیڈا سے یونس سیٹھ عرف یونس میمن(جن کا نام سپریم کورٹ کے مقدمات میں بھی لیا جاتا رہا ہے) کی نگرانی میں چلنے والے سسٹم کا نیٹ ورک نمایاں ہے۔ ان کا نیٹ ورک واٹسپ اور دیگر نیٹ ورک میں کام جاری ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدیق آدمجی یونس میمن کا ملک میں مرکزی کردار ہے جو حساس ادارے کے تحویل میں تھے ہفتہ کو انہیں جناح اسپتال میں خصوصی وارڈ میں داخل کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں کراچی اور سندھ میں طاقتور سسٹم میں ایک ہلچل پیدا ہوگئی ہے۔ سسٹم کے مبینہ افسران کے تبادلے نے سندھ کے حکمرانوں کے تمام حلقوں میں بے چینی پیدا ہونے کا سبب بن گیا ہے۔ حقائق اس کے برعکس بتائے جاتے ہیں۔ مبینہ طو ر پر تاجر تنظیموں سے عسکری ادارے کے سربراہ سے ملاقات کے بعد کراچی سسٹم کے بعض افراد کے خلاف الزامات عائد کرنے پر ایکشن ہوا ہے یا پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ سے ملاقات میں سندھ کے محکموں میں چلنے والے سسٹم کے خلاف کاروائی کی سفارش اور ہدایت کے بعد افسران کے تبادلے اور تقرری کا طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔ کراچی میں سسٹم وزیراعلی سندھ کی نگرانی میں فنانس اور پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ میں چلنے والا عرصہ دراز سے جاری ہے،جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے دست راست اومنی گروپ کے مالک اے جی مجید کا جاری ہے۔ فریال تالپور بھی سسٹم کی مرکزی کردار ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی سسٹم کے تحت زمینوں پر قبضہ،زمینوں کے گھناؤنے کھیل میں اربوں روپے مالیت کی سرکاری اور نجی اراضی کو ٹھکانے لگا دیا گیا ہے۔ کراچی کے ڈپٹی کمشنروں، اسسٹنٹ کمشنروں، مختیار کارورں، پٹواریوں، تپہ داروں اور پولیس۔ سے مل کر MDA/LDA/KDA/SKAA گوٹھ آباد کی ملی بھگت سے مل کر زمینوں پر قبضہ میں شریک ہیں، سب سے زیادہ ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی،لیاری ڈیویلمنٹ اتھارٹی، اسکیم 33،ملیر ،غربی،کیماڑی ،کورنگی اور شرقی ضلع کی اربوں روپے مالیت کی زمینوں کو ٹھکانے لگا چکے ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں غیر قانونی تعمیرات کا بڑے پیمانے پر سسٹم چل رہا ہے،ماسٹر پلان میں بھی سسٹم جاری ہے۔ کراچی میں کنٹونمنٹ بورڈ کی زمین بعض سسٹم کے تحت کمرشل لائزیشن،بلند و بالا عمارتوں کے ساتھ نئے منصوبے کی تعمیرات عروج ہے لیکن کسی ایک افسر کے خلاف کاروائی نہ ہوسکی کیونکہ تمام غیر قانونی کام ملی بھگت سے ہو رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اے جی مجید، علی حسن بروہی عرف زہری، علی حسن زرداری، محمد علی شیخ، یونس میمن، سمیت دیگر سسٹم کی شخصیات نے مختلف محکموں میں تبادلے تقرری اور من پسند افسران کو تعینات کرایا ہوا ہے۔ محکمہ پولیس میں سسٹم وزیر اعلی سندھ کے اسٹاف آفیسر فرخ بشیر کی سربراہی میں ہو رہا ہے۔ آئی جی سندھ، ایڈیشنل آئی جی کراچی،ڈی آئی جیز، ایس ایس پیز، ایس پیز کو اپنے محکمہ میں پولیس افسران و اہلکاروں کے تبادلے کا اختیار نہیں ہے۔ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسزیشن، ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم، ہائر ایجوکیشن کمیشن،مذہبی امور، اوقاف، کلچر ٹورازم،انرجی، فوڈ،جنگل، داخلہ، صنعت و تجارت، انفارمیشن، آبپاشی،لیبر، لائف اسٹاک، منرل و مائز سوشل ویلفیئر، ورکس اینڈ سروسز، بلدیات ٹاون پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں الگ الگ سسٹم جاری ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن،ہائیڈرنٹس میں پہلے ہی کئی سالوں سے طاقتور سسٹم کامیابی سے چل رہا ہے جبکہ سسٹم کے طاقتور افسران دنوں میں کروڑں اروں روپے کما کر دے رہے ہیں۔ڈاریکٹر جنرل MDAنجیب الدین سہتو سسٹم کے اہم افسر تھے ان کو فوری تبادلہ کرکے سکریٹری جنگلات اور سکریٹری جنگلات ڈاکٹر بدر جمیل منیدرو کو رپورٹ کرنے اور گریڈ 19کے افسر سعید صالح جمانی کو MDAکاDGبنادیا وہ نگران وزیر مبین جمانی کے بیٹا ہے تین ضلع کے بشمول ڈپٹی کمشنر کیماڑی طارق چیمہ، ڈپٹی کمشنر شرقی شہزاد فضل عباسی،ڈپٹی کمشنر ملیر عرفان میرانی،امتیاز علی شاہ کو اچانک عہدوں سے ہٹایا دیا گیا ہے۔ سسٹم کے پولیس افسران میں ایس ایچ او منگھوپیر غلام حسین کورائی اسمگلنگ،زمینوں پر قبضہ میں ملوث ہونے کے ساتھ علی حسن بروہی کے دست راست بھی ہیں ان سے اعلی پولیس افسران بھی باز پرس نہیں کرسکتے ہیں۔ موچکو کا عہدہ 20 کروڑ روپے بولی میں ملنے والے ایس ایچ او بشیر بدو طاقتور پولیس افسر تصور کئے جاتے تھے ان کا تبادلہ کردیا گیا۔ایس ایچ کلفٹن اعظم راجپر کو ہٹایا دیا گیا جبکہ اسکیم 33 میں بڑے پیمانے پر زمینوں کے قبضہ پر سندھ ہائی کورٹ نے بڑی کاروائی کرتے ہوئے طاقتور افسران کو عہدے سے برطرف کرنے کا حکمنامہ جاری کیا ہے۔ ان میں علی حسن بروہی گروپ کے ایک اہم رکن ضمیر عباسی (PBS-18) بطور سیکریٹری بورڈ آف ریونیو کے ساتھ لینڈ یوٹیلائزیشن سیکریٹری، ممبر بورڈ سمیت دیگر افسران کے اختیارات استعمال کررہے تھے۔ سندھ ہائیکورٹ نے عہدے سے ہٹانے اور 19 دسمبر 2024 کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت جاری کی ہے۔عدالت کا حکمنامہ NO.SO1(SGA&CD/-3/27/2024 بتاریخ 12 دسمبر 2024ء، سندھ ہائی کورٹ نے رمیز احمد صدیق اسکیم 33 میں پٹیشن D-5999.2024 میں ضمیر عباس کو عہدے سے برطرف کیا ہے، عدالت نے دوسرا طاقتور مختیارکار اعجاز الحسن خان گلزار ہجری(اسکیم33) کو عہدے سے برطرف کیا ہے،جو عرصہ دراز سے عہدے پر تعینات ہیں اور کئی بار ان کو ہٹانے کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ اعجاز الحسن خان پر اسکیم 33 کی زمینوں کی لوٹ مار، قبضہ،جعلی کاغذات بناکر کئی سوسائٹیز کی الاٹیز کے پلاٹوں پر قبضہ کرنے کا الزام موجود ہے۔ وہ اربوں روپے مالیت کی بلڈرز کی زمینیں ہڑپ کر چکا ہے۔ منشی امجد بھٹی تپہ دار ماری پور ضلع کیماڑی سے ہٹایا گیا، منشی حق نواز اجن تپہ دار کو اضافی عہدے ماری پور دیہہ گابوپٹ،دیہہ مٹھان کا عہد ہ دیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق سسٹم کے اہم رکن محمد علی شاہ نے نیب کے کئی مقدمات بننے پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ وہ گریڈ 20 کیلیئے ٹرینگ پر ہیں وہ سسٹم کے اہم اور فعال کردار ہیں جو براہ راست سندھ کی طاقتور خاتون کو جوابدہ ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں ہیں کہ کیا سسٹم کا سندھ سے مستقل خاتمہ ہو سکے گا۔۔۔؟ یا چند ہفتوں میں یہ افسران اپنے اپنے عہدوں پر دوبارہ تعنیات ہو جائیں گے؟… ایسے بہت سے سوالات عوامی حلقوں میں گشت کر رہے ہیں۔