کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی اربوں روپے مالیت کی قیمتی زمینوں پر قبضے میں لینڈ مافیا کے مرکزی کردار عرفان بیگ، لئیق احمد، نبی بخش عرف نبی بخش ولد علی نواز سمیت دیگر ملوث ہیں،ان کے خلاف مقدمات درج ہیں اور تیسر ٹاون کی سیکٹر 6-B میں قبضہ ہونے والی تمام زمینیں ان کی ایما پر کی گئی ہیں جن کی رپورٹ پہلے ہی ڈائریکٹر جنرل MDA کو دی جاچکی ہے۔ نیو ملیر اسکیم ون کے کمرشل کوریڈور سیکٹر 3 میں قبضہ میں عرفان بیگ اور لئیق احمد ملوث ہیں اس کے باوجودِ لئیق احمد کو تحقیقاتی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے جس سے تحقیقاتی کمیٹی مشکوک ہو گئی ہے، جس کا معطل ہونے والے ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ علی اسد خان نے بھانڈا پھوٹ دیا، اسی وجہ سے انہوں نے تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے صاف انکار کیا ہے کیونکہ کمیٹی میں لینڈ مافیا کے سہولت کار لئیق احمد شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ علی اسد خان BPS-18 نے کنوینر و چیئرمین انکوائری کمیٹی وقار علی سومرو کو اپنا تحریری بیان ریکارڈ کراتے ہوئے تمام الزامات کو مسترد کردیا ہے اور اسے حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے چارج شیٹ تحریری طور پر دی جانے کے بجائے واٹس اپ کے ذریعے موصول ہوئی ہے جو کہ سراسر غیر قانونی عمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ، میں ہمیشہ سے ایک ایماندار اور محنتی افسر کے طور پر کام کرتا رہا ہوں اور ہمیشہ قانون کی پابندی کرتے ہوئے کسی اصول کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ میرے خلاف حکومتی ہدایات کی تعمیل نہ کرنے اور سرکاری ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے کے حوالے سے جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ حقائق کے برخلاف ہے اور اس میں دروغ گوئی سے کام لیا گیا ہے۔اس سلسلے میں، ڈائریکٹر جنرل، ایم ڈی اے نے سیکٹر-3، کمرشل کوریڈور NMHS-1 MDA پر تجاوزات کے حوالے سے مجرم کا تعین کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی نے ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ علی اسد خان، ایگزیکٹو انجینئر ذیشان حسین اور اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر خالد اقبال کو نا اہلی،غفلت، بدانتظامی اور لینڈ مافیا کے سہولت کار قرار دیتے ہوئے انہیں اخری موقع دیا ہے کہ وہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کروائیں ورنہ ان کے خلاف سروسز ایکٹ 1973ء کے تحت کاروائی ہوسکتی ہے۔ چارج شیٹ کے مطابق معطل افسران کو کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرانا تھا لیکن میں پیش نہیں ہوا جس کی وجہ یہ تھی کہ کمیٹی کے ممبران میں سے ایک ڈائریکٹر پلاننگ لئیق احمد سیکٹر تھری کمرشل کوریڈور نیو ملیر اسکیم ون کی بدانتظامی اور زمینوں پر قبضے میں ملوث ہونے کے ساتھ مجھ سے باعث ہیں جس کی وجہ سے وہ غیر جانبدار نہیں ہو سکتے۔ یہاں مزید کہا گیا کہ لئیق احمد اور عرفان بیگ MDA NMHS-1 کی زمینوں پر قبضے میں براہ راست ملوث ہیں۔ایک دن میں نے تیسر ٹاؤن اسکیم-45، ایم ڈی اے کی جگہ کا دورہ کیا تو میں نے دیکھا کہ سیکٹر 6-B، تیسر ٹاؤن پر تجاوزات کا سلسلہ جاری ہے جس کے خلاف میں نے ایکشن لیا اور مذکورہ صورتحال سے ڈائریکٹر جنرل ایم ڈی اے کو اپنے سیل فون پر آگاہ کیا جس کے جواب میں ڈائریکٹر جنرل نے زیر دستخطی کو ہدایت کی کہ غیر قانونی قابضین کے خلاف ایکشن لیں،تاہم ایک روز کے بعد میں ایگزیکٹیو انجینئر ذیشان کے ساتھ متاثرہ جگہ یعنی سیکٹر-3 NMHS-1 MDA پر گیا، میں نے دیکھا کہ مذکورہ زمین پر تجاوزات کا سلسلہ جاری ہے، تو میں نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن زمین پر قبضہ کرنے والوں کے ساتھ مسلح افراد موجود تھے جس کی وجہ سے میں فوری ایکشن نہ لے سکا۔ وہاں موجود قابضین میں ایک شخص نے بتایا کہ زمین کے سلسلے میں ڈائریکٹر پلاننگ لئیق احمد اور سابق ڈائریکٹر قانون عرفان بیگ کے ساتھ معاملات طے ہوچکے ہیں اور تمام تجاویزات جلد قانونی شکل اختیار کر لیں گی لہذا آپ کو فوری طور پر یہاں سے نکل جانا چاہئے اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آنا چاہئے ورنہ مسلح افراد کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ میں نے اسی وقت ڈائریکٹر جنرل ایم ڈی اے کو فون کیا اور مذکورہ صورتحال سے آگاہ کیا۔ ڈائریکٹر جنرل ایم ڈی اے نے مشورہ دیا کہ تجاوزات قائم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے، جس پر میں نے جواب دیا کہ انسداد تجاوزات پولیس اور بھاری مشینری کے بغیر کارروائی کیسے کی جائے،واضح رہے کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں کراچی سسٹم کے تحت من مانے فیصلے، بدنظمی اور بدانتظامی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ادارے میں قانون پر عملدرآمد ہو رہا ہے نہ ہی عدالتی احکامات کو تسلیم کیا جارہا ہے۔ ادارے کے مستقل افسران کو بے دخل کردیا گیا ہے۔ تنخواہیں بند،مراعات بند ادارے کو عارضی ملازمین یا ورک چارج سے کام چلائے جانے کی تصدیق ادارے کے افراد نے کی ہے۔ اس بربادی کے ساتھ لینڈ مافیا کے ساتھ مل کر اربوں روپے مالیت کی زمینوں کی لوٹ مار کا کھناونا کاروبار جاری ہے۔ مبینہ طور پر ایڈیشنل چیف سکریٹری بلدیات و ہاؤسنگ کی ہدایت اور حکمنامہ کو ڈائریکٹر جنرل نجیب الدین سہتو نے مسترد کرتے ہوئے عدالتی حکمنامے پر عملدرآمد سے صاف انکار کردیا ہے۔ سابق ڈائریکٹر شاہد محسن عدالتی حکم کے باوجود اب تک بحال نہ ہوسکے اور تنخواہ بھی جاری نہ ہوسکی، اس دوران وہ ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے۔ سابق ڈائریکٹر اختر میؤ, حسین ایوب سمیت دیگر افسران کو بھی عدالتی فیصلوں کے باوجود ان کی تنخواہیں سے محروم رکھا گیا ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب)، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن کے ساتھ دیگر تحقیقاتی ادارے مع ایم کیو ایم(پاکستان) اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی چمک کے زیر اثر مکمل خاموش ہیں۔پولیس کی سرپرستی میں لینڈ گریبرز اربوں روپے مالیت کی سرکاری و غیر سرکاری زمینوں کو ٹھکانے لگاتے جارہے ہیں جبکہ آغا محمد زبیر پھر کمپیوٹر آپریٹر (BPS-14) کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ، مدر محکمے یعنی سہون ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں کر دی گئی ہے جہاں انہیں اسسٹنٹ ڈائریکٹر (BPS-17) کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ زبیر اب اس اتھارٹی کے محتاج نہیں رہے کیونکہ ان کی خدمات بھی مشکوک ہیں۔ ان کا سروس ریکارڈ بھی متنازعہ قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اتھارٹی سے ان کی خدمات واپس لیکر ان کو فارغ کرتے ہوئے ان کو ان کے مدر ڈپارٹمنٹ سہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں بھیج دیاگیا ہے۔ وہ یہاں پر زمینوں پر قبضے کے حوالے سے ایک مافیا کا روپ اختیار کر گیا تھا۔آغا زیبر پر 281 ریکارڈ فائلیں میں جعلسازی پر اینٹی کرپشن پولیس کو مقدمہ درج کرکے تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے