پیرس(نمائندہ خصوصی):پاکستان نے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اقوام متحدہ ادارہ برائے ریلیف اینڈ ورکس (انروا) کی مسلسل اور بلا روک ٹوک سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیل کے جنگی جرائم پر احتساب کا مطالبہ کیا ہے اور یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کے آٹھویں خصوصی اجلاس میں "انروا”کی تعلیمی سرگرمیوں کے تسلسل کی حمایت کرنے کی درخواست کرنے والے دیگر وفود میں بھرپور انداز میں شمولیت اختیار کی۔پیر کو یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کے آٹھویں خصوصی اجلاس میں فرانس میں پاکستان کے سفیر اور یونیسکو کے لئے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا کہ آج دنیا میں اور کہیں بھی تعلیم پر اس سطح پر حملہ نہیں کیا گیا جیسا غزہ میں دیکھا گیا ہے، طلباء کی پوری آبادی کے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ تقریباً 10,000 طالب علم جاں بحق اور دیگر 15,000 زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر بچے تھے، 400 سے زائد اساتذہ جاں بحق اور 2400 سے زائد زخمی ہوئے، تقریباً پورا تعلیمی انفراسٹرکچر بشمول سکول کی عمارتیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوگئیں، انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور تباہی کا پیمانہ ناقابل تصور ہے۔انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں کہیں بھی بین الاقوامی قانون بشمول بین الاقوامی انسانی قانون کی اس حد تک خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے جس کا ارتکاب قابض طاقت اسرائیل نے کیا ہے ، طویل ناکہ بندی اور انسانی امداد سے انکار کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کے کارکنوں اور تنظیموں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا گیا، ایسا واضح طور پر شہری آبادیوں کو زیادہ سے زیادہ تکلیف میں مبتلا کرنے کے لیے کیا گیا جو درحقیقت نہ صرف جنگی بلکہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ انروا جو انسانی امداد کی واحد لائف لائن ہے اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے تعلیم سمیت اہم خدمات فراہم کرنے والا ایک اہم ادارہ ہے، کو قابض اسرائیل کی طرف سے منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ، آج تک انروا عملے کے 247 اہلکار جاں بحق کئے جا چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں ریکارڈ کی جانے والی سب سے زیادہ تعداد ہے جو کسی دوسرے جنگی علاقے یا قدرتی آفت میں ہونے والے نقصانات سے زیادہ ہے۔عاصم افتخار احمد نے کہا کہ ہم اس اہم کام، صلاحیت اور برسوں پر محیط اس شراکت کو بموں اور میزائلوں کے ذریعے مٹانے یا قابض طاقت کی طرف سے کسی غیر قانونی قانون سازی کے ذریعے روکنے کی اجازت نہیں دے سکتے، یہ واضح ہے کہ اس طرح کے اقدامات بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہیں اور بین الاقوامی تنظیموں کے استثنیٰ اور تحفظات سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہیںانہوں نے کہا کہ تعلیم ایک بنیادی حق ہے جس سے انکار یا اسے سیاست کی نذر نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو سب سے زیادہ کمزور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انروا پر پابندی لگانے کی کوششوں کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ یونیسکو کے مینڈیٹ اور ایس ڈی جی-4 اور پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے وسیع تر وعدوں کی براہ راست توہین ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے ہمیں انروا کے مینڈیٹ کو برقرار رکھنے، اس کا احترام کرنے اور بغیر کسی رکاوٹ یا مداخلت کے اس کے تسلسل کو یقینی بنانے کے حوالے سے اسرائیل کی بین الاقوامی ذمہ داری کو اجاگر کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ انروا کا کوئی متبادل نہیں ہے، اس کے کام میں کسی قسم کی رکاوٹ یا معطلی کے لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے سنگین انسانی نتائج برآمد ہوں گے۔ عاصم افتخار نے کہا کہ پوری عالمی برادری ،اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے لے کر سکریٹری جنرل تک، آئی سی جے اور آئی سی سی نے وضاحت کے ساتھ بات کی ہے، یونیسکو کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خود بھی آواز بلند کرے اور انروا اور اس کے اہم انسانی مینڈیٹ کے لیے اپنی مضبوط حمایت کا اعادہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ غیرمعمولی بحرانوں کے اس دور میں سیکرٹریٹ کی قیادت کی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے غیر واضح خاموشی اور عدم دلچسپی افسوسناک ہےانہوں نے مزید کہا کہ یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ خصوصی درخواست اور طریقہ کار کے قواعد میں شامل شق کے باوجود انروا کے سربراہ کو سیشن کو بریف کرنے کے لیے بروقت دعوت نہیں دی گئی تھی تاہم ہم تنظیم کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگانے اور نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتے، رکن ممالک کو اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہنا چاہیے، اس لیے یہ سیشن اسے تعلیم کے محافظ کے طور پر یونیسکو کے کردار کی بھرپور تائید اور انروا کے اہم مینڈیٹ کے لیے ہماری بھرپور حمایت کے طور پر کام کرنے دیں۔انہوں نے زور دیا کہ ہم فلسطینی بچوں، ان کے مستقبل اور کثیرالجہتی مفاد میں قرارداد کے مسودے کو اپنی مکمل حمایت کے ساتھ منظور کریں جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ انروا کو کمزور کرنے والے قوانین اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے نقصان دہ ہوں گے، اس لیے ہمیں خطے میں پائیدار امن اور سلامتی کے حتمی مقصد کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے اور جیسا کہ "لی مونڈے” نے 22 نومبر کے اپنے اداریے میں لکھا کہ آئی سی سی کے گرفتاری کے وارنٹ اسرائیل کے استثنیٰ کے خلاف ایک موقف ہے اور انصاف کے ایک ضروری تقاضا کے طور پر احتساب کی یاد دہانی ہے۔سفیر نے زور دیا کہ بے شک احتساب ہونا چاہیے۔اپنے بیان کے اختتام پر عاصم افتخار نے غزہ میں فوری، مکمل، پائیدار اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر پاکستان کے مطالبے کا اعادہ کیا ۔انہوں نے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق 1967 سے پہلے کی سرحدوں اور القدس الشریف کے دارالحکومت کے ساتھ فلسطین کی خودمختار، آزاد ریاست کے قیام کے اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کیا۔