اسلام آباد/باکو۔(نمائندہ خصوصی):وزیرِ اعظم کی کوآرڈنیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی وماحولیاتی روابط رومینہ خورشید عالم نے کہاہے کہ پاکستان میں سیلاب کے خطرات کے سدباب کیلئے جدید حکمتِ عملی کو اپنانا ہوگا، پاکستان موسمیاتی خطرات کا سامنا کررہا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے باکو میں پاکستان پویلین میں کوپ 29 عالمی موسمیاتی کانفرنس کے موقع پر ”ریچارج پاکستان: انڈس کی زندگی“ کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ 2022 کے سیلاب نے لاکھوں افراد کو بے گھر کیا اور اربوں روپے کا معاشی نقصان پہنچایا، ماحولیاتی بنیادوں پر تطبیق کی تکنیکوں کو مرکزی دھارے میں لانا ایک قابل عمل حل ہے جو قدرتی ماحولیاتی نظام کے عمل کو استعمال کرتے ہوئے سیلاب کے خطرات کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ حیاتیاتی تنوع، روزگار اور موسمیاتی لچک کے لیے مشترکہ فوائد فراہم کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی منفرد جغرافیائی حالت ایب اے(ایکو سسٹم بیسڈ اڈاپٹیشن)جیسے جدید حل کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے تاکہ سیلاب کے خطرات سے نمٹا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ ریچارج پاکستان ایک ایب اے پر مبنی سیلاب اور آبی وسائل کے انتظام کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کی لچک سازی کا منصوبہ ہے جو دیگر ممالک کے لیے ایک بہترین مثال ثابت ہوگا۔ڈائریکٹر جنرل ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان حماد نقی خان نے کہا کہ مون سون کی بارشیں اور پہاڑی ندیوں کا پانی خاص طور پر موسم گرما میں ملک میں سماجی و اقتصادی نقصانات کا باعث بن رہا ہے کیونکہ اضافی پانی ذخیرہ کرنے کی سہولتیں نہیں ہیں تاہم ریچارج پاکستان منصوبے کے تحت ملک میں خشک یا رکے ہوئے آبی ذخائر کی بحالی کے لیے کوششیں کی جائیں گی تاکہ اضافی سیلابی پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے جسے بوقت ضرورت گھریلو، زرعی اور زیرِ زمین پانی کی بحالی کے لیے استعمال کیا جاسکے۔موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی ہم آہنگی کی وزارت، وفاقی سیلابی کمیشن پاکستان اور ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے تعاون سے اور اقوام متحدہ کے زیرِ انتظام گرین کلائمیٹ فنڈ کی فنڈنگ سے 77 ملین ڈالر کا ”ریچارج پاکستان“ منصوبہ ممکن بنایا گیا ہے جس میں مقامی کمیونٹیز، ڈیرہ اسماعیل خان، رامک واٹرشیڈ، منچھر چکر لہری واٹرشیڈ، یو ایس ایڈ اور دیگر کارپوریٹ شراکت داروں کا تعاون شامل ہےاس وسیع اور ملک کے سب سے بڑے سیلابی پانی کے انتظام کے منصوبے میں اپنائی جانے والی ایب اے کی حکمتِ عملی اور سبز انفراسٹرکچر کے اقدامات کا مقصد سیلاب کے پھیلائو کو 50800 ہیکٹر تک کم کرنا اور 20 ملین مکعب میٹر پانی کو ذخیرہ کرنا ہے۔اس کے علاوہ واٹرشیڈ کے انتظام کے اقدامات کا مقصد 1.6 ملین مکعب میٹر مٹی کے اندرونی پانی کو بحال کرنا ہے۔ یہ اقدام انڈس دریا کے دونوں طرف تقریباً 6 لاکھ 80 ہزار لوگوں کو براہِ راست اور 70 لاکھ افراد کو بالواسطہ فائدہ پہنچائے گا انٹرنیشنل ڈبلیو ڈبلیو ایف کے عالمی رہنما برائے موسمیات اور توانائی سابق کوپ صدر مینویل پلگار ویڈال نے کہا کہ پاکستان میں لاگو ہونے والا یہ سب سے بڑا ایڈاپٹیشن منصوبہ عالمی سطح پر موسمیاتی خطرات سے لچک پیدا کرنے کی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے جو اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام کوپ اجلاسوں سمیت عالمی موسمیاتی فورمز میں اپنایا جارہا ہے لیکن اس منصوبے کی کامیابی،جو دیگر سیلاب زدہ ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک نمونہ بن سکتا ہے، اس بات پر منحصر ہوگی کہ دریائے سندھ کے بیسن میں بسنے والی مقامی کمیونٹیز کی شرکت کی سطح کتنی ہوگی۔انہوں نے کہاکیونکہ بیشتر ایسے منصوبے مقامی کمیونٹیز کی شرکت نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہوچکے ہیں۔ یو ایس ایڈ انٹرنیشنل چیف کلائمیٹ آفیسر کرسٹن سری نے کہا کہ 2022 اور 2010 کے سیلاب جنہوں نے وسیع پیمانے پر سماجی و اقتصادی نقصان کیا اور لاکھوں افراد کو بے گھر کیا، ہمیں پاکستان کے موسمیاتی حساسیت کی یاد دلاتے ہیں، جس کے نتیجے میں بیماریوں کا بوجھ بھی بڑھا۔انہوں نے کہا کہ تب سے یو ایس ایڈ نے خاص طور پر پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر ملک میں سیلابوں اور ان کے اثرات سے نمٹنے کے لیے سمارٹ اور قابل عمل آبی انتظام کے حل اپنائے ہیں۔ کرسٹن سری نے کہا کہ ہم اپنے اقدامات کو مزید آگے بڑھائیں گے تاکہ جنگلات کی بحالی، انڈس ماحولیاتی نظام اور لوگوں اور ان کے روزگار کی موسمیاتی لچک کو ”ریچارج پاکستان“ منصوبے کے تحت بڑھایا جاسکے۔