اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی):وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ والدین کی شناخت سے محروم بچوں کے حوالے سے نادرا میں پالیسی موجود ہے، اس پالیسی کے تحت ان بچوں کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے، ایسے بچوں کے لئے شرط ہے کہ ان کا تعلق ایسے یتیم خانے یا چائلڈ پروٹیکشن یونٹ سے ہو جو نادرا کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں۔ وہ پیر کو ایوان بالا میں سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری کی قرارداد پر اظہار خیال کر رہے تھے۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ والدین کے بغیر بچوں کے جب آئی ڈی کارڈ بنتے ہیں تو ولدیت کی جگہ رینڈملی نام ڈال دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر والدین کے بغیر آئی ڈی کارڈ جاری کریں گے تو ان سے امتیازی سلوک ہوگا اور معاشرے میں ان کے لئے مشکلات ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملہ کو کمیٹی کو بھجوانے کی بجائے چیئرمین نادرا کے ساتھ میٹنگ کر لیں۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ پالیسی کے تحت 280 بچوں کو پہلے ہی رجسٹرڈ کیا جا چکا ہے، اسے مزید بہتر کیا جا سکتا ہے، اگر مجہول النسب لکھا گیا یا بغیر والدین کے آئی ڈی کارڈ جاری کئے گئے تو ان بچوں کے لئے معاشرے میں جینا مشکل ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یتیم خانوں اور چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کو نادرا کے ساتھ رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے اور ایسے بچوں کی شناخت کے لئے نادرا میں موثر نظام لانے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے بچوں کی رجسٹریشن ممکن ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات اس حوالے سے آگاہی مہم چلانے کو تیار ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ کام پاکستان کے لیجنڈ مرحوم عبدالستار ایدھی نے شروع کیا تھا اور اسے سپریم کورٹ کا تحفظ بھی حاصل ہے، اگر ایوان بالا کی پروٹیکشن حاصل ہو جائے گی تو یہ مزید بہتر ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ نظام کیسے بن سکتا ہے جس میں بچوں کا نقصان نہ ہو اور ہم زیادہ سے زیادہ بچوں کو اس طریقے سے رجسٹرڈ کر کے ان کو آئی ڈی کارڈ جاری کر سکیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے ثمینہ ممتاز زہری کے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر کسی کے والدین نہیں ہیں تو نادرا ڈیٹا بیس کے اندر رینڈملی کوئی بھی نام ولدیت میں لکھ دیا جاتا ہے اور ڈیٹا بیس سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ بچہ وہ ہے جس کی ولدیت نہیں ہے۔وفاقی وزیر عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ ہمارے ایوان کے ایسے رکن بھی ہیں جنہوں نے ایسے بچے پالے ہیں اور ان کو اپنے بچوں سے بڑھ کے پالا ہے، زمین دی ہے، وراثت میں حق دیا ہے اور اسی طرح پالا جس طرح اپنے بچوں کو پالتے ہیں، یہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔