استنبول(نمائندہ خصوصی):ترکیہ کی سیر کیلئے 7 پاکستانی موٹرسائیکلسٹ نے استنبول تک اپنا دوستی کا سفر مکمل کرلیا، دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سیاحت کے تبادلے کو فروغ دینا ہے۔پاکستانی موٹرسائیکلسٹ مکرم ترین کی قیادت میں 11اکتوبر کو لاہور سے روانہ ہونے والا موٹرسائیکل گروپ 18 دن کی مہم جوئی کے بعد اپنی آخری منزل استنبول پہنچا۔7 پاکستانی موٹرسائیکل سواروں کے گروپ نے ایران کے راستے ترکی کے سفر کا آغاز کیا اور پاکستان ترکیہ دوستی کو مضبوط کرنے کے لیے اس کو ’’لاہور- استنبول ریلی ‘‘کا نام دیا گیا۔گروپ کے ارکان نے اناطولیہ کے کئی شہروں سے گزرتے ہوئے تقریبا8 ہزار کلومیٹر کا سفر کیا۔18 دن بعد اپنی منزل استنبول پہنچ کر مکرم ترین کی قیادت میں گروپ نے راستے میں پیش آنے والی مشکلات، ناقابل فراموش لمحات اور اپنے احساسات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ہم نے 11 اکتوبر کو لاہور سے اپنا سفر شروع کیا اور پھر ایران کے راستے تر کیہ کیلئے سفر کیا۔گروپ لیڈر مکرم ترین نے کہا کہ پاکستان، ایران اور ترکیہ دوست اسلامی ممالک ہیں اور ہماری ثقافت، خوراک اور دوستی سینکڑوں سال کی تاریخ پر مبنی ہے۔مکرم ترین نے کہا کہ استنبول بھی لاہور کی طرح تاریخی شہر ہے، اس لئے ہم استنبول تک اس سفر کے خواہشمند تھے۔یہاں پہنچنا ہمارے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دوستی کی علامت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ لاہور کی تنگ گلیاں اور تاریخی ساخت استنبول سے ملتی جلتی ہے، استنبول کے لوگ، دکانیں اور پرانے شہر کی دیواریں لاہور سے مشابہت رکھتی ہیں۔مشرقی ترکیہ اپنی بلند وبالا پہاڑی چوٹیوں، برف پوش پہاڑوں اور دیہاتوں کے ساتھ ایک منفرد خوبصورتی رکھتا ہے اور یہاں کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔مکرم ترین نے مزید بتایا کہ ہم نے روزانہ 300 سے 400 کلومیٹر کا سفر طے کیا،ہمیں راستے میں رک کر مقامی کھانوں سے لطف اندوز ہونے اور لوگوں سے تبادلہ خیال کا بھی موقع ملا ، ہم نے ایران اور ترکیہ کے بہت سے موٹر سائیکلسٹس سے بھی ملاقات کی اور انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی۔ سفر کے دوران گروپ کے ایک رکن کے انقرہ میں موٹر سائیکل انجن میں خرابی کے باعث ہم کچھ دیر کے لیے وہاں رک گئے تھے،جہاں ترک موٹرسائیکل سواروں سے ملاقات ہوئی اور عشائیہ میں تر کیہ کے روایتی کھانوں کے ذایقہ سے استفادہ کا موقع ملا۔ گروپ لیڈر مکرم ترین نے کہا کہ یہ ریلی صرف ایک ذاتی دورہ نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط سیاحتی تعاون کا باعث بنے گی، ترکیہ سیاحت کی ایک بڑی معیشت ہے، پاکستان کو بھی سیاحت کے شعبہ کی ترقی، تحفظ اور بحالی کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔انہوں نے بتایا کہ ہم اپنے آئندہ سفر میں ازبکستان اور قازقستان کا دورہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، پاکستان اور ترکیہ کے دوستانہ تعلقات کو دوسرے ممالک تک بھی وسعت دی جانی چاہیے۔گروپ کے ایک رکن منور حسین نے بتایا کہ میں قبل ازیں ہوائی جہاز کے ذریعے ترکیہ آیا تھا اور اس بار موٹرسائیکل پرسفر سے ایک مختلف تجربہ حاصل ہوا ہے ، موٹرسائیکل پر سفر کے دوران چھوٹے شہروں اور دیہاتوں کو دیکھنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ایران میں بھی ہمارا بہت گرمجوشی سے استقبال کیا گیا۔سعودی عرب کے شہر مدینہ میں رہنے والے 31 سالہ ابوبکر چیمہ نے بھی استنبول اور لاہور کے درمیان مماثلت کا ذکر کیا اور کہا کہ مشکلات کے باوجود سفر خوشگوار رہا، ہم نے ترک شہریوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔انٹرویو کے اختتام پر گروپ اراکین نے ترک شہریوں کو پاکستان آنے اور پاکستان کے ثقافتی ورثہ کے بارے میں جاننے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی تقریبات سے دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے اور سیاحت کی بدولت ثقافتی رشتے مزید مستحکم ہوں گے۔