فیصل آباد۔ (نمائندہ خصوصی)حرمت رسول ؐ کے پروانے غازی علم دین شہید ؒ کی برسی کل (31 ا کتوبر )منائی جائے گی۔ 6اپریل 1929کو شمع رسالتؐ اور حرمت رسول ؐ کے پروانے غازی علم دین شہیدؒ نے حضور پا ک ؐ کی شان میں گستاخی پر مبنی کتاب لکھنے اور شائع کرنے پر ایک ہندو پبلشر راجپال کو ہسپتال روڈ انار کلی لاہور میں واقع اس کے دفترمیں گھس کر انگریز سرکار کی بھاری پولیس گارڈ کی موجودگی میں چھری سے حملہ کر کے جہنم واصل کر دیا تھا۔ غازی علم دین شہید کو زیر دفعہ 302تعزیرات ہند کے تحت 22مئی 1929کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا جن کے وکیل صفائی بانی پاکستان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح تھے لیکن انگریز سرکار کی پریوی کونسل نے ان کی اپیل خارج کر دی جس پر 31اکتوبر 1929کو غازی علم دین ؒ کو میانوالی جیل میں تختہ دا ر پر لٹکا دیا گیا۔پھانسی پانے سے قبل شمع رسالت ؐ کے پروانے ؒ نے پھانسی گھاٹ پر موجود انگریز و ہندو افسران کو مخاطب کر کے کہا کہ میں نے حرمت رسول ؐ کےلئے راجپال کو قتل کیا ، تم گواہ رہو کہ میں محبت رسول ؐ میں کلمہ شہادت پڑھتا ہوا راہ حق میں جان قربان کر رہا ہوں ۔غازی علم دین شہید نے شہادت گاہ پر کھڑے ہو کر وہا ں موجود سب حاضرین کو گواہ بنا کر تین مرتبہ بلند آواز میں کلمہ شہادت پڑھا اور پھر پھانسی کے رسے کو چوم کر گلے میں ڈال لیا۔ پھانسی کے بعد غازی علم دین شہید کی نمازجنازہ میانوالی جیل میں ادا کی گئی اور وہیں دفن کر دیا گیا۔اس پر لاہور سمیت مختلف شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے جس پر مسلمانوں کا ایک وفد مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ اور سر محمد شفیع کی قیادت میں وائسرائے ہند سے ملا اور غازی علم دین کا جسد خاکی لاہور لے جانے کا مطالبہ کیا جس پر وائسرائے نے چند شرائط پر یہ درخواست منظور کرلی اور اس طرح 8نومبر 1929کو غازی علم دین شہید کا جسد خاکی میانوالی سے ریل کے ذریعے لاہور لایاگیاجہاں ان کی نماز جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ غازی علم دین شہید کی 4مرتبہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پہلی مرتبہ بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا دیدار علی شاہ، دوسری بار مسجد وزیر خان کے خطیب مولانا شمس الدین، تیسری مرتبہ حضرت مولانا سید احمد شاہ اور چوتھی مرتبہ حضرت پیر سید جماعت علی شاہ نے غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ ادا کروائی، بعد ازاں آپ کو میانی صاحب لاہور کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ تدفین کے موقع پر حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ نے غاز ی علم دین کا جسد خاکی لحد میں اتار ا۔ انہوں نے شہید کا ماتھا چوم کر فرمایا کہ "ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا، اسی تے گلاں کردے رہ گئے”۔