انسداد دہشت گردی عدالت نے سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریانتھاکمارا کے قتل کیس میں 6 مجرموں کو 2 بار سزائے موت سنادی۔
سیالکوٹ فیکٹری کے غیر ملکی منیجر کو مذہبی پوسٹر اتارنے کا الزام لگا کر قتل کردیا گیا
سزائے موت پانے والے مجرموں میں تیمور، عبدالرحمان، محمد ارشد، علی حسین، ابوطلحہ اور محمد حمیر شامل ہیں۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس میں 9 مجرموں کو عمرقید کی سزا سنائی ہے،عمر قید پانے والے مجرموں میں روحیل امجد، محمد شعیب، احتشام، عمران ریاض، ساجد امین، ضیغم مہدی، علی حمزہ، لقمان حیدر اورعبدالصبور شامل ہیں۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے 72 مجرمان کو 2 ،2 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
عدالت نے ایک مجرم علی اصغر کو 5 سال قید کی سزا سنائی ہے جب کہ کیس میں ایک ملزم بلال کو الزام ثابت نہ ہونے پر بری کردیا گیا۔
گوجرانوالا کی انسداد دہشت گردی عدالت نےکیس کا ٹرائل کوٹ لکھپت جیل لاہور میں مکمل کیا۔
قبل ازیں گذشتہ سال3 دسمبر کو سیالکوٹ میں اسپورٹس گارمنٹ کی فیکٹری کے غیر مسلم سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا پر فیکٹری ورکرز نے مذہبی پوسٹر اتارنے کا الزام لگا کر حملہ کردیا تھا، پریانتھا کمارا جان بچانےکیلئے بالائی منزل پر بھاگے لیکن فیکٹری ورکرز نے پیچھا کیا اور چھت پر گھیر لیا۔
انسانیت سوز خونی کھیل کو فیکٹری گارڈز روکنے میں ناکام رہے، فیکٹری ورکرز نے منیجر کو اوپر سے نیچے پھینک دیا اور پھر لاش کو گھسیٹ کر فیکٹری سے باہر چوک پر لے گئے، ڈنڈے مارے، لاتیں ماریں اور پھر آگ لگا دی۔
کیس میں 150 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے متعدد افراد کو ابتدائی تفتیش کے بعد بے گناہ ثابت ہونے پر رہا کردیا گیا۔
قتل کیس میں ملوث افراد کا فارنزک ٹیسٹ اور فوٹو گرافک ٹیسٹ بھی کیا گیا اور سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں موجود افراد کے چہروں کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔
12 مارچ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے قتل کیس میں 89 ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی۔
گوجرانوالا کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جج نتاشہ نسیم نے سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے قتل کیس پر کوٹ لکھپت جیل لاہور میں سماعت کی تھی۔
پراسیکیوشن نے بالغ اور نابالغ ملزمان کےخلاف علیحدہ علیحدہ چالان جمع کرائے، پہلے چالان میں 80 بالغ ملزموں کو نامزد کیا گیا جبکہ دوسرا چالان 9 نابالغ ملزموں کا پیش کیا گیا ۔
پراسیکیوشن کی جانب سے 40 گواہوں، واقعےکی ویڈیوز، ڈیجیٹل شواہد، ڈی این اے شواہد اور فارنزک شواہد کو چالان کا حصہ بنایا گیا تھا، کیس میں گرفتار تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا