اقوام متحدہ(نمائندہ خصوصی)پاکستان نے جوہری ہتھیاروں میں استعمال کے قابل تابکار مواد کی تیاری پر پابندی کے مجوزہ معاہدے کو ناقص قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والےتابکار مواد کی پیداوار پر پابندی کے مجوزہ معاہدے کی مخالفت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک پہلے ہی کئی ٹن افزودہ یورینیم ذخیرہ کر چکے ہیں اور ان کو جوہری ہتھیار تیار کرنے کےلئے مزید افزودہ یورینیم تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہی ممالک اس امتیازی معاہدے پر ضرورت سے زیادہ زور دے رہے ہیں۔۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے نائب مستقل مندوب عثمان اقبال جدون نےجنرل اسمبلی کی تخفیف اسلحہ اور بین الاقوامی سلامتی کے معاملات سے متعلق فرسٹ کمیٹی کو بتایا کہ مجوزہ معاہد ے کے نتیجے میں محض جوہری ہتھیاروں میں استعمال کے قابل تابکار مواد کی تیاری میں کٹوتی کی جائے گی اور چونکہ یہ معاہدہ جوہری عدم توازن کو دوام ہی بشے گا اس لئے اس کے جوہری اسلحہ کی تحفیف کے حوالے سے موثر اور کامیاب ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ وہ ممالک جنہوں نے پہلے ہی کئی ٹن افزودہ تابکار مواد جمع کر رکھا ہے ان کو تو یہ مواد تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے وہ اگلے منطقی اقدام کے طور پر تابکار مواد کی افزودگی کی ایک حد مقرر کرنے جیسی تجاویز پر زور دے رہی ہیں۔ایسی تجاویز پیش کرنےوالوں میں وہ ممالک جوش و خروش کے ساتھ شامل ہیں جو جوہری دفاع کو وسعت دینے اور جوہری ہتھیاروں کے اشتراک کے انتظامات کے لئے دیگر ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ اگر فزائل میٹریل کٹ آف ٹریٹی کے حامی افزودہ تابکار مواد کی پیداوار کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں دوہرے معیار کو مسترد کرتے ہوئے اپنی کوششوں کا آغاز جنوبی ایشیا کے کسی ملک مثلاً بھارت کے ساتھ جوہری تعاون کے خاتمے سے کرنا چاہیے جو حفاظتی انتظامات کے بغیر افزودہ تابکار مواد کو ذخیرہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور اب جوہری ہتھیاروں میں استعمال کے قابل تابکار مواد کی بڑے پیمانے پرتیاری کی راہ پر گامزن ہے۔انہوں نے کہا کہ اس پس منظر میں فزائل میٹریل کٹ آف ٹریٹی ( ایف ایم سی ٹی )میں نقائص تھے اور اب یہ موجودہ دور کے لئے موزوں نہیں رہا۔انہوں نے کہا ہتھیار سازی میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور اس میں جوہری ہتھیاروں کی شمولیت عالمی سطح پر سلامتی کے منظر نامے کو دھندلا رہی ہے اور یہ ریاستوں کی سلامتی پر منفی اثر ات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ عدم توازن میں بھی اضافہ کرے گا۔پاکستانی مندوب نے نشاندہی کی کہ خطے میں سب سے پہلے بھارت نے جوہری ہتھیار متعارف کرائے ، بھارت جوہری تجربات پر پابندی کے معاہدے پر دستخطوں سے انکار کرتا ہے، پاکستان کے خلاف جارحیت کی دھمکی دیتا ہے،جموں و کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کو مسترد کرتا ہے اور سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا خواہاں ہونے کے ساتھ ساتھ تحمل کے اقدامات پر بات چیت کو بھی مسترد کرتا ہے۔پاکستانی مندوب نے واضح کیا کہ جوہری ہتھیار رکھنے والی سب سے بڑے ممالک جوہری تخفیف اسلحہ کی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، اپنے ہتھیاروں کو جدید بنانا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا بڑی فوجی طاقتوں کی طرف سے خطرات، حل نہ ہونے والے تنازعات، موثر سکیورٹی میکانزم کی عدم موجودگی، اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ممالک جوہری ہتھیاروں کی حصول کی کوشش کرتے ہیں۔انہوں نے جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کے مقصد کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا جو ایک عالمگیر، قابل تصدیق اور غیر امتیازی طریقے سے حاصل کیا جائے۔اس مقصد کے حصول میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے ایک انٹرنیشنل کنونشن آن نیگیٹو سکیورٹی ایشورنسز (این ایس ایز ) سے عالمی جوہری خطرات کو کم کرنے میں مدد ملے گی ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ’این ایس ایز‘پر اپنا مسودہ قرارداد بھی پیش کرے گا۔عثمان اقبال جدون نے جوہری تخفیف اسلحہ کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کئے جانے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ ہمیں ان ریاستوں کے سکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے بھی اپنی کوششیں تیز کرنی چاہئیں جو ان ریاستوں کو اپنے دفاع کے لئے جوہری ہھتیاروں کے حصول کی کوششوں جیسے اقدامات کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔