کراچی(نمائندہ خصوصی) وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کے واقعے پر جو موقف پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنایا ہے وہ ملکی تاریخ میں پہلے کسی نے نہیں اپنایا۔ اس کے باوجود خود کو روادار کہنے والوں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی۔یہ بات انہوں نے سانحہ کارساز کی یادگار پر پھول چڑھانے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ صوبائی وزرا ناصر شاہ، جام اکرام دھاریجو ، اراکین صوبائی اسمبلی مکیش چاؤلا، امداد پتافی اور دیگر بھی اس موقع پر موجود تھے۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ڈاکٹر شاہنواز واقعے کی ابتدائی رپورٹ کے بعد ہی حکومت نے بالکل واضح موقف اپنایا۔ اگر حکومت رپورٹ منظر عام پر نہ لاتی تو کسی کو پتہ تک نہ چلتا کہ ہوا کیا ہے۔ یہ ہماری حکومت کا منشور ہے کہ کچھ نہیں چھپایا جائےگا۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم نے سینیئر پولیس افسران کے نام ایف آئی آر میں ڈالے، انہیں اپنے عہدوں سے ہٹادیا اور انہیں تفتیش میں شامل کیا۔ اس کے باووجود کچھ لوگ حکومت اور ان کے اقدامات کی تعریف کرنے کی بجائے اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ رواداری مارچ کے روز دفعہ 144 اس لیے نافذ کیا کہ ایک مذہبی جماعت نے بھی اسی جگہ مارچ کی کال دی تھی۔ یہ ایک سنگین صورتحال تھی۔ تصادم کا خطرہ تھا۔ کسی ناخوشگوار صورتحال کو روکنے کےلیے حکومت نے رواداری مارچ کی قیادت کو درخواست کی کہ وہ مارچ کو ملتوی کریں لیکن انہوں نے اس کے باوجود دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ڈاکٹر شاہنواز کا واقعہ افسوس ناک تھا، ایسے واقعات سندھ میں رونما نہیں ہونے چاہئیں۔ سندھ صوفیوں کی سرزمین ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ انسان رب کائناب کی خوبصورت، پیاری، اہم اور اشرف مخلوقات ہے، اسلام کی کسی بھی تشریح سے خون بہانا جائز نہیں ہے اور نہ ہی دیگر مذاہب میں اس کی اجازت ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے واضح کیا کہ ہم کسی شخص یا ہجوم کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے سکتے، قانون موجود ہے اور الزامات کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ رواداری مارچ کے شرکا کے ساتھ جو ہوا اس پر میں نے میڈیا کے ذریعے معذرت کرلی ہے۔ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے باوجود ہم نے واقعے کی غیرجانبدار تحقیقات کی ہدایت کردی ہے۔ میں نے خود رواداری مارچ کی قیادت سے بات کی لیکن انہوں نے اپنے اعتراضات مجھے بتانے کے بجائے میڈیا میں باتیں کرنا شروع کریں جو انتہائی نامناسب رویہ ہے۔سانحہ کارساز پر بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ سترہ سال پہلے شہید محترمہ بےنطیر بھٹو نے اپنی جلاوطنی ختم کرکے کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کیا۔ پاکستان بھر سے ہزاروں افراد اپنی محبوب قائد کے استقبال کےلیے جمع ہوئے تھے۔ شاہراہ پر لوگوں کا سمندر تھا جس کے باعث محترمہ کے قافلے کو کارساز تک پہنچنے میں 10 گھنٹے لگے جہاں دھماکا ہوگیا۔ سیکڑوں کارکنان شہید ہوگئے اس کے باوجود بڑی تعداد میں کارکن کنٹینر کے گرد جمع ہو رہے تھے اور ایک ہی سوال پوچھ رہے تھے کہ بی بی کو تو کچھ نہیں ہوا۔ یہ کارکنوں کا اپنی قائد کے بارے میں جذبہ تھا۔شہید محترمہ بےنظیر بھٹو کی بہادری کا ذکر کرتے ہرتے مراد علی شاہ نے کہا کہ دھماکے کے دوسرے ہی روز جس میں180 جانیں گئیں اور محترمہ کو روکا جا رہا تھا کہ آپ باہر نہ نکلیں ، آپ کی جان کو خطرہ ہے، وہ جناح اسپتال گئیں اور زخمی کارکنوں کی عیادت کی اور لیاری بھی گئیں جہاں شہید کارکنوں کے لواحقین کے ساتھ تعزیت کی۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 180 کارکنوں اور شہید محترمہ بےنظیر بھٹو کی جان کی قربانی کے بعد اس ملک میں جمہوریت بحال ہوئی ہے۔ اس جمہوریت کو محترمہ بےنظیر بھٹو نے اپنا خون دیا ہے، اس کی کوئی قیمت نہیں۔ایک سوال کے جواب میں مراد علی شاہ نے کہا کہ سانحہ کارساز اور شہید محترمہ بےنظیر بھٹو کے قاتل اس لیے نہیں پکڑے گئے کیونکہ وقوعہ کو فوری طور پر دھو کر شواہد ضایع کردیے گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب میں وزیراعلیٰ بنا تو سی ٹی ڈی کو سانحہ کارساز کی تفتیش کی ہدایت کی لیکن انہوں نے کہا کہ وقوعہ پر شواہد موجود نہیں ہیں اس لیے نتائج نہیں نکل سکتے ۔
آئینی ترامیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری ایک ایک شق پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔