اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی)وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ امن و امان کے حوالے سے چاروں صوبائی حکومتوں سے ہمارا رابطہ ہے، وفاق تمام صوبوں کو ہر ممکن سپورٹ اور سہولت فراہم کرے گا، اے پی ایس واقعہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان تیار کیا گیا جس کے تحت دہشت گردی کا خاتمہ ہوا پھر ایک حکومت ایسی آئی جس نے گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی بحث شروع کی، طالبان کو واپس لا کر بسایا، آج اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں، دہشت گرد کبھی خیبر پختونخوا اور کبھی بلوچستان میں حملے کرتے ہیں، دکی کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، بے گناہ مزدوروں کو شہید کیا گیا، کچے کے علاقے میں آپریشن کے لئے پولیس کی ٹریننگ کی گئی اور انہیں درکار اشیاءفراہم کی گئیں، بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے کی روایت ڈالی، ہم نے کبھی سیاسی مخالفت کو سیاسی دشمنی میں نہیں بدلا، جب بانی پی ٹی آئی اسٹیج سے گرے تو نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم ملتوی کی اور ان کی تیمار داری کے لئے گئے، بانی پی ٹی آئی نے نفرت کے جو بیج بوئے آج اس کی فصل کاٹ رہے ہیں۔جمعہ کو سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ صوبوں میں امن و امان کے معاملات 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کو منتقل ہو چکے ہیں، وفاقی حکومت نے دہشت گردی اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کو ایک فورم پر اکٹھا کیا۔ انہوں نے کہا کہ سرحدوں پر سمگلنگ، دہشت گردی، بڑے گروہوں جیسے معاملات کے حل کے لئے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اے پی ایس پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی بنیاد رکھی گئی، اے پی ایس حملے میں بچوں کو شہید کیا گیا، اے پی ایس کے معاملے پر پوری قوم ایک پیج پر اکٹھی تھی، وفاق نے اس وقت کہا کہ وفاق بڑے بھائی کا کردار ادا کرے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے باوجود امن و امان کے گھمبیر مسائل پر قومی پالیسی بنانے پر مل بیٹھ کر بات کی گئی، نیشنل ایکشن پلان کی میٹنگز میں وزیراعظم خود کئی مرتبہ کراچی گئے، کراچی کی روشنیاں بحال ہوئیں، امن بحال ہوا۔ انہوں نے کہا کہ 2013ءمیں ہر دوسرے دن دہشت گردوں کے حملے ہوتے تھے، آئی ای ڈیز کے ذریعے حملے کئے جاتے تھے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نیشنل ایکشن پلان میں علماءکرام اور میڈیا کو اکٹھا کیا گیا، نفرت انگیز تقاریر پر پابندی عائد کی گئی، اتحاد بین المسلمین نے اس میں اپنا کردار ادا کیا، تمام مکتبہ فکر کے علماءکرام نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ تمام سٹیک ہولڈرز کے تعاون سے نیشنل ایکشن پلان پر کامیابی سے عمل درآمد ہوا اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ایک ایسی حکومت آئی جس نے گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی بحث شروع کی اور دہشت گردوں کو واپس لا کر بسایا۔ ان کے اس اقدام کے باعث آج ہم لاشیں اٹھا رہے ہیں، آئے روز ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ یہ بگاڑ کس نے اور کب پیدا کیا؟ اس وقت کے وزیراعظم نے دہشت گردوں کو واپس لا کر بساتے وقت یہ نہیں دیکھا کہ نیشنل ایکشن پلان موجود ہے، اس نیشنل ایکشن پلان کے تحت وفاق اور صوبوں نے مل کر قربانیاں دی ہیں اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا ہے۔ آج یہ دہشت گرد بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حملے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور 24 گھنٹے میں سے 16 گھنٹے سیاسی سرگرمیوں پر صرف کرتے ہیں لیکن امن و امان کے حوالے سے ان کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ کسی نے خیبر پختونخوا میں امن و امان پر توجہ نہیں دی کہ وہاں سیف سٹی منصوبہ لگ سکے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور اور اسلام آباد میں سیف سٹی کامیابی سے کام کر رہے ہیں، لاہور میں ہمارے سینئر آفیسر کیپٹن مبین شہید ہوئے، انہوں نے بہت ساری سروس کوئٹہ میں کی تھی، سیف سٹی کیمروں کی وجہ سے ہم نے ملزمان ٹریک کئے، ان افغان باشندوں تک پہنچے جنہوں نے انہیں شہید کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی اور انہیں سزا دلوائی، قصور میں زینب قتل کیس میں ملوث ملزم کو پھانسی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ دکی کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، دکی واقعہ میں شہید ہونے والے بے گناہ مزدور تھے، سرفراز بگٹی قابل وزیراعلیٰ ہیں، ان پر مکمل اعتماد ہے، سکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر وہ دہشت گردی جیسے مسائل کے حل کیلئے بھرپور کوششیں انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی امن قائم کیا ہے، اب بھی کریں گے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کا سہرا صدر آصف علی زرداری کو جاتا ہے، یہ ان کا وژن تھا، این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو وسائل مہیا کئے جاتے ہیں، امن و امان اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے صوبوں کو فنڈز ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2018 سے 2022 تک نیشنل ایکشن پلان پر کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا، دہشت گردی اور دہشت گردی کا خاتمہ اس دور کی حکومت کی ترجیحات میں نہیں تھا۔ سیاسی مخالفت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں سکھایا گیا تھا کہ سیاسی مخالف سیاسی دشمن نہیں ہوتا، ہمیں سکھایا گیا تھا کہ جب مخالف کرین سے گرے تو اس کی ہسپتال جا کر تیمار داری کی جاتی ہے، نواز شریف نے 2013 میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی کرین سے گر کر زخمی ہونے پر خود ہسپتال جا کر تیمار داری کی، 2013 کے الیکشن کے بعد خود چل کر بنی گالا گئے اور مل کر کام کرنے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ وقت کا دھارا ہے، کل آپ یہاں بیٹھے تھے آج ہم بیٹھے ہیں، کل کوئی اور بیٹھا ہوگا، بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے ہماری سیاسی روایات کو زہر آلود کیا۔ ان کے دور میں فریال تالپور کو چاند رات کو ہسپتال سے جیل بھیجا گیا، مریم نواز کو جھوٹے مقدمات میں والد کے سامنے گرفتار کیا گیا، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے کی روایت بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی والدہ انتقال کر گئی تھیں اور جج کو آرڈر تھا کہ جرح مکمل کرنی ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کے خاندانوں پر جھوٹے پرچے کاٹے گئے، شہباز شریف کی بیٹیوں کے گھروں کا گھیرائو کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بانی چیئرمین نے سیاست کو آلودہ کیا اور نفرت پھیلائی، انہوں نے نفرت کے جو بیج بوئے آج اس کی فصل کاٹ رہے ہیں۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ امن و امان صوبائی معاملہ ہے لیکن وفاق بھرپور تعاون کے لئے تیار ہے، کچے کا مسئلہ صرف سندھ کا مسئلہ نہیں، یہ پنجاب میں بھی ہے، کچے کے آپریشن میں پولیس کو بھیجا گیا، پولیس کو بوٹس فراہم کی گئیں، دریا کے دونوں کناروں پر مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کے حوالے سے چاروں صوبائی حکومتوں سے ہمارا رابطہ ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کی میٹنگز میں چاروں صوبائی وزراءاعلیٰ شرکت کرتے ہیں، وفاق کی امن و امان پر بھرپور توجہ ہے، صوبائی حکومتوں کو نہ صرف سپورٹ بلکہ ہر ممکن سہولت فراہم کریں گے۔