اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی)ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ایکو سولائزیشن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (اے آئی ای آر ڈی) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شکیل احمد رامے نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کی توجہ آہستہ آہستہ رکن ممالک کے اقتصادی روابط اور ترقی کی طرف منتقل ہو رہی ہے جبکہ رکن ممالک کے ساتھ پائیدار اقتصادی تعلقات قائم کرنے کی منتقلی سے فائدہ اٹھانے کا یہ ایک اچھا موقع ہے، شنگھائی تعاون تنظیم ایک علاقائی فورم کے طور پر ابھری ہے جس کا مقصد تیزی سے عالمی اقتصادی، سماجی اور سفارتی تبدیلیوں کے درمیان تمام رکن ممالک کی تعمیر اور مضبوطی ہے جس کے نتیجے میں طاقت کا ڈھانچہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے، جہاں چین سب سے طاقتور معاشی کھلاڑیوں میں سے ایک کے طور پر نمودار ہواہے اور عالمی اقتصادی اور انتظامی نظام کو بہتر بنانے کے لئے اصلاحات کے لئے آواز اٹھانے میں پیش پیش رہا ہے۔اے آئی ای آر ڈی کے سی ای او نے اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس پراپنے ایک بیان میں کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام سرحدی انتظام اور سلامتی سے متعلق معمولی مسائل کو حل کرنے کے لئے عمل میں لایا گیا لیکن بعد میں اس میں توسیع کردی گئی۔ شنگھائی تعاون تنظیم حجم اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی علاقائی تنظیم ہے اس کے ارکان دنیا کی آبادی کا تقریبا40 فیصد پر مشتمل ہیں اور ان کی جی ڈی پی 24 بلین امریکی ڈالر ہے، ان کے پاس 20 فیصد تیل اور 44 فیصد گیس کے ذخائر ہیںسعودی عرب اور دیگر خواہش مندوں کی شمولیت سے مارکیٹ کا حجم، توانائی کے وسائل کا حصہ (تیل اور گیس)اور اقتصادی حجم میں مزید اضافہ ہوگا۔ شکیل احمد رامے نے کہا کہ یہ واحد تنظیم ہے جو چار جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک (چین، روس، بھارت اور پاکستان) اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دو ارکان کی میزبانی کرتی ہے۔ 2004 میں چینی وزیر اعظم نے ایس سی او کے تمام ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدوں کے لئے کام کریں۔ 2005 میں چین نے اس پر مزید غور و خوض کے لیے 100 ایکشن دستاویز بھی پیش کی تھیں۔2018 میں سربراہان مملکت کے اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ بین العلاقائی تجارت کے لیے تجارتی طریقہ کار کو آسان بنایا جائے۔ 2019 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلامیے میں ایک بار پھر ممالک سے کہا گیا تھا کہ وہ اقتصادی تعاون اور تجارت بڑھانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں۔2024 میں ارکان نے سربراہ مملکت کے اجلاس میں دوسری ترقیاتی حکمت عملی کی منظوری دی۔ انہوں نے کہا کہ اراکین نے تجارت، سرمایہ کاری سمیت متعدد شعبوں میں تعاون پر بھی اتفاق کیا اور سرمایہ کاری تعاون کو فروغ دینے میں نجی شعبوں کو شامل کرنے کے لئے خصوصی پہل کی۔انہوں نے کہا کہ چین اقتصادی تعاون کو فروغ دے رہا ہے اور ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری اور تجارتی روابط کو فروغ دے رہا ہے اور مثالی طور پر آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں اس نے شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ اپنی تجارت میں اضافہ کیا ہے۔ اس وقت چین شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن کی حیثیت سے پاکستان کے پاس شنگھائی تعاون تنظیم کی اقتصادی صلاحیت، اس کے پلیٹ فارمز اور اس کے رکن ممالک کے اقدامات سے فائدہ اٹھانے کا بہترین موقع ہے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان اس صلاحیت سے فائدہ نہیں اٹھا سکا اور چین کے علاوہ موجودہ پاک شنگھائی تعاون تنظیم کے تجارتی اعداد و شمار کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے لئے پاکستان کی برآمدات اور درآمدات کے اعداد و شمار بہت زیادہ نہیں ہیں کیونکہ پاکستان کی ازبکستان کو مجموعی برآمدات 27.91 ملین امریکی ڈالر، قازقستان کو 107.2 ملین ڈالر، تاجکستان کو 32 ملین ڈالر اور کرغزستان کو 10.6 ملین امریکی ڈالر ہیں۔ امپورٹ کے محاذ پر صورتحال ایک بار پھر ویسی ہی ہے۔ازبکستان سے پاکستان کی درآمدات 32.3 ملین امریکی ڈالر، قازقستان سے 1.9 ملین ڈالر، تاجکستان سے 202 ملین ڈالر اور کرغزستان سے 309 ملین امریکی ڈالر ہیں۔ روس ایک اور بہت اہم ملک ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اہم معماروں میں سے ایک ہے۔ مزید برآں، روس معروف معیشتوں اور ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔یہ ایک سپر پاور تھی اور اب بھی بین الاقوامی معاملات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان روسی مارکیٹ سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی پالیسی تیار نہیں کر سکا۔بین الاقوامی تجارتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی روس کو کل برآمدات صرف 88 ملین امریکی ڈالر ہیں اور اس کی درآمدات کی مالیت 885 ملین امریکی ڈالر ہے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان اور روس اپنی پریشان کن تاریخ پر قابو پانے اور اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور چین نے دونوں ممالک کو برف پگھلانے کا موقع فراہم کیا اور اب دونوں ممالک مزید بہتری پر کام کر رہے ہیں۔مزید برآں، روس گوادر بندرگاہ کو تجارت اور رابطے کے لیے استعمال کرنے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امید ہے کہ ان اقدامات سے تجارت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس تناظر میں پاکستان کی پالیسی انتہائی سمارٹ اور جدت طراز ہونی چاہیے۔سب سے پہلے پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام ممالک کی منڈیوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو ان ممالک کی منڈیوں اور انتظامی ڈھانچے کا مطالعہ کرنے کے لیے مستقل ادارے قائم کرنے چاہئیں۔ تمام ممالک کی منڈیوں اور گورننس کے ڈھانچے کی جامع تفہیم سے پاکستان کو ایک دانشمندانہ اور معروضی پالیسی وضع کرنے میں مدد ملے گی۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کو تجارتی روابط کو بہتر بنانے کے لیے جدید طریقے تلاش کرنے چاہئیں۔