کراچی (اسٹاف رپورٹر ) ضلع وسطی و شرقی کی دیہی خواتین کے لئے تنظیم)پودا کی عہدیداروں درخشاں صالح، ماریہ قسیم،سیدہ عظمی حسین، عائشہ ریاض اور وسعیہ امین نے کہا ہے کہ 15اکتوبر کو دیہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اس دن کو پاکستان میں بھی پورے جوش و خروش اور احترام کے ساتھ منانے کے علاوہ دیہی خواتین کے حقوق کے لئے عملی اقدامات کا بھی اعلان کیا جائے۔ اس دن کو سرکاری طور پر اور سرکاری سطح پر منایا جائے۔ وہ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔ درخشان صالح اور دیگر نے کہا کہ ہم اس دن کو اپنے پلیٹ فارم پوڈا کی جانب سے بھرپور طریقے سے منا رہے ہیں۔ دیہی خواتین بھی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ہم پاکستان کی ایوان مقننہ، قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں، حکومت، عدلیہ، سیاسی رہنماؤں، صنعت کاروں، کی توجہ اور اپنے مطالبات سے آگاہی دے رہے ہیں کہ صنفی مساوات کے فروغ، اور سیاسی شراکت داری، کے لئے ہر ضلع کی سطح پر فیصلہ سازی کے ادارے مثال کے طور پر مصالحتی اور امن کمیٹیوں اور ووٹرز کی تربیت کی کمیٹیوں میں خواتین کی نمائندگی میں اضافہ کیا جائے۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں خواتین کی نمائندگی 50فیصدکی جائے۔ تمام صوبوں میں حکومتوں کے اس نظام کو فعال کرتے ہوئے پنجاب میں خاص طور پر فوری بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرایا جائے۔ صنفی بنیادوں پر تشدد کی روک تھام کے لئے عورتوں اور بچوں پر تشدد، جنسی تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لئے یونین کونسل کی سطح پر کمیونٹی آگاہی مہم اور پولیس اہلکاروں کی تربیت کی جائے۔ گھریلو تشدد، ملازماؤں پر تشدد کے خلاف قوانین سخت کرنے کے لئے بل پاس کئے جائیں۔ شیلٹر ہومز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ خواتین کی معاشی ترقی اور خود مختاری کے معاملے کے لئے حکومت زراعت کے شعبے سے وابستہ خواتین کو مردوں کی طرح کسان تسلیم کرے۔تاکہ وہ وہ سرکاری زرعی اسکیموں مراعات اور دیگر سہولتوں سیے استفادہ کرسکیں۔ ساتھ ہی زمینوں کے ملکیتی حقوق اور وراثتی منتقلی کے عمل میں بھی خواتین کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔لینڈ ریکارڈ سینٹرز میں خواتین اسٹاف، پٹواری اور گردوار کے طور پر بھرتیاں کی جائیں۔سندھ میں خواتین کاشتکاروں سے متعلق 2019ایکٹ کے تحت یونین سازی اور رجسٹریشن کا عمل آسان بنایا جائے۔ اسے باقی صوبوں میں بھی نافذ کیا جائے۔ ہنر مند خواتین کے لئے تمام اضلاع میں بزنس مراکز بنائے جائیں۔خواتین ہنر مندوں کو آسان قرضے دیئے جائیں۔موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لئے حکومتی ادارے قومی و بین الاقومی این جی اوز، موسمیاتی تبدیلیوں سے متلق اقدامات اور اہداف کے حصول کے لئے عملی اقدامات میں شجرکاری مہمات میں عورتوں کی مقامی تنظیموں کو شامل کیا جائے۔ ایسی فصلیں بھی متعارف کرائی جائیں۔ جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف زیادہ برداشت رکھتی ہوں۔دیہی خواتین اور بچوں کی تولیدی صحت کے بارے میں معاملے پر آگاہی کے لئے حکومت کنکریٹ انتظامات کرے۔ہائی اسکولوں میں غذائیت اور صحت وصفائی کے بارے میں تعلیم دی جائے حکومت نادرا کے ذریعے فعال انداز میں بچوں کی پیدائش کی رجسٹریشن اور18سال کی عمر میں شناختی کارڈ کے اجراء کو یقینی بنایا جائے۔ دیہی خواتین اور بچوں کی معیاری تعلیم تک رسائی یقینی بنائی جائے۔ انہیں میٹرک کے بعد مفت تعلیم دینے کا اقدام کیا جائے تاکہ وہ مالی مشکلات کی وجہ سے آگے پڑھنے سے نہ محروم رہیں۔آئین کی آرٹیکل 25-Aکے تحت 5سے16سال کی عمر تک کے بچوں کے لئے مفت تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ Digital اور جدید تعلیم بھی دی جائے۔ ملک میں کم عمری کی شادی کی سرکاری سطح پر حوصلہ شکنی کی جائے۔18سال سے کم عمر کی شادی کا پورے ملک میں قانون کا اطلاق کرکے روکا جائے کہ وہ اسکی Violationنہ کریں۔ والدین اور علمائے کرام جو کم عمری کی شادی کی اجازت دیتے ہیں انہیں سزائیں دی جائیں۔پولیس اہلکاروں کو لڑکیوں اور عورتوں کے تحٖفظ کے لئے بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کا پابند کیا جائے۔ جنسی جرائم کی درست تفتیش کی تربیت اور پابندی کرائی جائے۔ لڑکیوں اور بچوں کے لئے ذہنی جسمانی،صحت اور اعتماد کے لئے ورزش، کھیل، اور Self Defence کی تربیت دینے اور کھیلوں کی جگہیں مختص کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انکی یہ تجاویز تمام ملک کے70اضلاع میں 150سے زائد دیہی خواتین رہنماؤں کی مشاروت سے تیار کی گئی ہیں۔ اس پر عمل درآمد کے حوالے سے ہر فورم پر جانے کا بھی اعلان کیا۔