اسلام آباد( نمائندہ خصوصی )امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون کانفرنس کے دوران پُر امن ماحول ضروری ہے تاہم اس کی آڑ میں آئینی ترمیم لا کر حکومت اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتی ہے تو یہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ ہم آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت کے اپنی مرضی کے عدالتی نظام لانے کے ہتھکنڈوں کو مسترد کرتے ہیں، تمام حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی اب اس پر گفتگو ختم کر دینی چاہیے، اپوزیشن جماعتوں سے درخواست ہے کہامجوزہ ترمیم کی جزیات کے کے گورکھ دھندے میں نہ پڑیں۔ نئے چیف جسٹس کے آنے کے بعد آئینی ترمیم پر بات چیت کی جائے۔ملک کی بہتری اسی میں ہے ادارے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔ادارہ نورحق کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا حکمران چھوٹے کاشتکاروں کا استحصال کرتے ہیں۔ ہاری کارڈ اور کسان کارڈ جیسے اقدامات نمائشی ہیں ان سے کسانوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، مطالبہ ہے کہ بڑے جاگیرداروں پر ٹیکس لگایا جائے۔امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان،سیکرٹری جنرل کراچی توفیق الدین صدیقی، ڈپٹی سیکرٹری قاضی صدر الدین، سیکرٹری اطلاعات کراچی زاہد عسکری، پبلک ایڈ کمیٹی کے سیکرٹری نجیب ایوبی، نائب صدر عمران شاہد ودیگر بھی اس موقع پر موجود تھے۔حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے فارم 47والی ایم کیوایم کو بھی زکام ہواہے کہ ان کے بھی مطالبات مانے جائیں،ان کی حیثیت کیا ہے،ایم کیو ایم نے کراچی میں ایک پولنگ اسٹیشن بھی نہیں جیتا،دودو،تین تین ہزار ووٹ ملے ہیں لیکن جعلی طریقے سے اس کو مسلط کیا گیا ہے، ایم کیو ایم نے تو ہمیشہ کراچی کی حیثیت کو تباہ وبرباہ کیاہے۔امیر جماعت نے کہا کہ 5آئی پی پیز بند کرنے سے ہونے والا 411ارب روپے کا فائدہ عوام کو منتقل کیا جائے اور فی یونٹ تقریباً15روپے کم کیے جائیں،رہائشی اور صنعتی صارفین کو سستی بجلی دی جائے، مزید 17آئی پی پیز ایسی ہیں جن سے بات چیت فوری طور پر مکمل کی جائے، ہماری آرمی چیف سے بھی درخواست ہے کہ وہ آگے آئیں اور اعلان کریں کہ فوج کے دائرے میں آنے والی آئی پی پیز کیپیسٹی پیمنٹ وصول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں مہنگی بجلی، آئی پی پیز کے عوام دشمن معاہدوں اور ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف جماعت اسلامی کی جدو جہد جاری رہے گی، ملک میں تقریباً 150آئی پی پیز ہیں، قومی معیشت کا بڑا انحصار بجلی کی قیمتوں پر ہے، فی الوقت 5آئی پی پیز سے معاہدوں کی منسوخی قابل ِ تحسین ہے، جماعت اسلامی کی عوامی جدو جہد میں شریک تمام سیاسی کارکنوں اور تاجروں کو بھی ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے احتجاج اور دھرنے میں شرکت کی اور پُر امن ہڑتال کی حکومت کو مجبور کیا کہ وہ آئی پی پیز کے عوام دشمن معاہدوں پر نظر ثانی کرے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے گیس کے نرخوں میں فکس چارجز بڑھا دیئے ہیں، غریب عوام پر طرح طرح کے ٹیکس لگائے جارہے ہیں، ہمارے مطالبے کے مطابق اگر صرف 4فیصد بڑے جاگیرداروں پر ٹیکس لگایا جائے تو اربوں روپے کی سالانہ بچت ہو گی، حکومت نے کہا کہ ہم دو ماہ میں جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے والے ہیں لیکن حکومت اب یہ کہتی ہے کہ اس کا اطلاق یکم جولائی 2025سے ہوگا۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کراچی کا انفرا اسٹرکچر تبال حال ہے، سڑکیں ٹوٹی ہوئی اور گٹر بہہ رہے ہیں، سندھ حکومت بلدیاتی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے پر تیار نہیں، سندھ میں کرپشن اور کمیشن انتہا پر ہے اور اسے سسٹم کہا جاتا ہے، اسی سسٹم کے تحت زمینوں پر بھی قبضے کیے جاتے ہیں۔ سندھ حکومت کراچی کو اس کا جائز اور قانونی حق دے۔امیر جماعت نے مزید کہا کہ کراچی میں کے الیکٹرک شہریوں کی خون پسینے کی کمائی نچوڑرہا ہے اور اسے نیپرا و حکومت کی سہولت اور سرپرستی بھی حاصل ہے، المیہ یہ ہے کہ سال ڈیڑھ ہوگیا ہے اور جو بڑے شیئرز ایک اور کمپنی نے لیے ہیں،لیکن اس کو اختیارات منتقل نہیں کئے جارہے اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس ہی نہیں ہورہا، جس کی وجہ سے پورا شہر پریشان ہے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ سندھ حکومت کی نگرانی میں 70فیصد کرپشن ایک‘ایک ٹھیکے پر کی جارہی ہے،پروجیکٹ20 ارب روپے کاہوتا ہے اور 100 ارب تک چلا جاتا ہے، یونیورسٹی روڈ پرریڈ لائن بس سروس کا 20 فیصد کام بھی ابھی تک نہیں ہوا اور لوگ بے حد پریشان ہیں، روزانہ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہورہا ہے،انہوں نے کہا کہ عوام کے مینڈیٹ کے مطابق جماعت اسلامی کا میئر ہونا چاہیے تھا لیکن بلدیاتی الیکشن میں بدترین دھاندلی کی گئی اور عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا 8فروری کو جو عام انتخابات ہوئے تھے اس میں بھی عوامی مینڈیٹ کو کچلا گیا، این اے 231میں ابھی اس کے چار اسٹیشنز کی ری کاؤنٹنگ ہوئی،اس دوران حکومتی پارٹی ووٹوں کے بیگ ہی لے کر بھاگ گئی، کوئی پوچھنے والا نہیں، الیکشن کمیشن سے کوئی بات کی جائے تو وہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سود اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے مترادف ہے، سپریم کورٹ کے مطابق پانچ سال میں اسکو ختم ہوجانا چاہیے تھا اب دو سے ڈھائی سال ہوگئے ہیں،حکومت نے کوئی پیش رفت نہیں کی۔حکومت عدالتی احکامات کے مطابق ملک سے سودی معیشت ختم کرے۔انہوں نے کہا کہ ملک کے آئین میں درج ہے کہ جو معدنیات جس صوبے سے نکلے گی اس صوبے کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائے گی، ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت آئین کی پابندی کرتے ہوئے جو لوگ جہاں بھی رہتے ہیں اس کے مسائل آئین کے مطابق حل کرے اور ان کو ان کا حق دے۔