اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی)بین الاقوامی اور علاقائی امور کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اسلام آباد میں ہونے والا شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کوپاکستان کے لیے رکن ممالک کے ساتھ اپنے اقتصادی اور سفارتی تعلقات کو مضبوط بنانے اور انسداد دہشت گردی کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کرنے کا ایک اہم موقع قرار دیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا 23 واں دو روزہ سربراہ اجلاس 15 اور16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہوگا۔شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام 2001 میں عمل میں آیا اور اس کے نو رکن ممالک ہیں جن میں چین، روس، بیلاروس، کرغزستان، قازقستان اور ازبکستان شامل ہیں جبکہ پاکستان، بھارت اور ایران نے 2017 میں تنظیم میں شمولیت اختیار کی ۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی تیاری کے لیے پاکستانی حکومت نے سخت حفاظتی اقدامات کیے ہیں اور ایونٹ کے دوران امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے اور سکیورٹی اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے فوجی دستوں کے ساتھ ہزاروں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا ہے۔علاقائی امور کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم پاکستان کے لیے ایک اہم سفارتی اور معاشی موقع فراہم کرتی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈی اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر محمد تیمور خان نے کہا کہ یہ سربراہ اجلاس پاکستان کے لیے یہ واضح کرنے کا ایک بہترین موقع ہے کہ وہ کس طرح سرمایہ کاری کو راغب کر سکتا ہے اور علاقائی رابطوں میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔انہوں نے اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس سے پاکستان کو اپنے معاشی اور جغرافیائی سیاسی مفادات کو وسیع تر سطح پر آگے بڑھانے کا موقع ملے گا، جو علاقائی امن، سلامتی اور خوشحالی کو فروغ دینے والی پالیسیوں کی حمایت کرے گی۔ ان روابط کے ذریعے پاکستان نہ صرف اہم علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنا سکتا ہے بلکہ وسیع تر یوریشین رابطے کے اقدام میں خود کو ایک اہم کڑی کے طور پر بھی پیش کر سکتا ہے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک بڑا پلیٹ فارم ہے اور یہ نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ سینئر صحافی افتخار شیرازی نے اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، جو دنیا کا پانچواں سب سے بڑا آبادی والا ملک ہے اور بین الاقوامی تجارت کے لئے اس کے اسٹریٹجک محل وقوع نے اپنے عوام کے فائدے کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے اس کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کے امور اور موجودہ علاقائی دہشت گردی پر بات چیت بھی اس اجلاس میں اہم ہوگی، انہوں نے مزید کہا کہ سلامتی کے امور اور دہشت گردی شنگھائی تعاون تنظیم کے لئے ایک اہم ایجنڈا آئٹم ہیں اور یہ اجلاس مسائل خصوصا افغانستان سے پیدا ہونے والی دہشت گردی جو پورے خطے کے لئے سنگین خطرہ ہے پر تبادلہ خیال اور حل کے لئے اہم ہے ۔اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں ”سب سے بڑا دہشت گردگروہ”ہے اور اسے پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کے لئے افغان طالبان کی بڑھتی ہوئی حمایت حاصل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جیو اسٹریٹجک سے جیو اکنامک فوکس کی جانب منتقل ہونے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم کا یہ سربراہ اجلاس پاکستان کے لیے اس حکمت عملی کو آگے بڑھانے اور واضح کرنے کا ایک موقع ہوگا۔ بین الاقوامی اور مالیاتی امور کے محقق منیب سلمان نے کہا کہ یہ کانفرنس ایک اہم کانفرنس ہوگی، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر پہلے سے کام کے پیش نظر، وسط ایشیا کے ساتھ پاکستان کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت تقریبا 20 ارب ڈالر ہے لیکن پاکستان کو وسائل سے مالا مال وسط ایشیا سے جوڑنا ایک دیرینہ عزم ہے۔ توقع ہے کہ اس اجتماع کے نتیجے میں رکن ممالک کے درمیان اقتصادی شراکت داری کو بڑھانے اور آئندہ سال کے لئے شنگھائی تعاون تنظیم کے بجٹ کی منظوری کے مقصد سے اہم اقدامات کی منظوری دی جائے گی۔اجلاس میں چین کے وزیر اعظم لی چیانگ، روسی وزیر اعظم میک ہیل میشوسٹن، بیلاروس کے وزیر اعظم رومن گولوفچینکو اور ایران کے پہلے نائب صدر رضا عارف شریک ہوں گے۔ قزاخستان کے وزیر اعظم اولزاس بیک تینوف، کرغزستان کے اکیل بیک جاپاروف، تاجکستان کے کوہیر رسول زودہ اور ازبکستان کے عبداللہ اریپوف بھی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ بھارت کے وزیر خارجہ ایس جےشنکر اپنے ملک کی نمائندگی کریں گے۔