کراچی (آغاخالد)ملک کے معروف سیاستداں اور پیکر شرافت الہی بخش سومرو سو سالہ زندگی پاکر آج 9 اکتوبر 2024 کو اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے وہ نصف صدی تک ملکی سیاست پر چھائے رہے متعدد بار رکن قومی اسمبلی اور ایک بار اسپیکر قومی اسمبی بھی رہے جبکہ بقول ہمارے محترم دوست منیرالدین کے وہ 80 کی دہائی میں وزیر اعظم بھی بنتے بنتے رہ گئے گزشتہ صدی کے پاکستانی سیاست کے بادشاہ گر پیر صاحب پاگارہ نے محمد خان جونیجو کو ان پر فوقیت دے کر انہیں وزارت عظمی کے منصب پر فائز کروادیا مگر اس کے باوجود سومرو مرحوم نے پیر صاحب سے قطع تعلق نہ کیا اور اپنے رشتوں میں دراڑ نہ آنے دی وہ ایسے ہی شریف النفس انسان تھے رکھ رکھائو تہذیب، شرافت، وضعداری ان کا کمال کا وصف تھا میرا ان سے کوئی خاص تعلق تو نہ تھا مگر 1990 کی دہائی میں روزنامہ پبلک میں ملازمت کے دوران پبلک کے مالک انقلاب ماتری کے ذریعے ان سے ہوئی چند ملاقاتیں میری یادوں کا انمول سرمایہ ہیں دکھ کی اس گھڑی میں جن میں سے ایک میں قارئیں کو بھی شریک کرنا چاہونگا، انقلاب ماتری کراچی کے ایک انتہائی معزز صحافی خاندان کے چشم و چراغ تھے ان کے والد فخر ماتری نے کراچی سے حریت اخبار اور ملت (گجراتی) کا اجرا کیا تھا یہ دونوں اخبار 1960/70 اور 80 کی دہائی تک کراچی کے معتبر اخبار سمجھے جاتے تھے جس نے کراچی کی صحافت کو بڑے نامور رپورٹر اور قلم کار دیے انقلاب ماتری نے اعلی تعلیم تو بیرون ملک حاصل کی مگر کالج تک وہ کراچی میں زیر تعلیم رہے اور یہیں ان کی دوستی الہی بخش سومرو سے ہوئی جہاں دونوں کلاس فیلو اور بے تکلف دوست بنے ماتری صاحب کہتے تھے میں اپنے عظیم والد کا نالائق بیٹا ہوں، انہوں نے ورثہ میں ایک شاندار ادارہ چھوڑا تھا مگر میں اسے سنبھال نہ سکا اور اسی احساس کے تحت مینے بڑھاپے میں روزنامہ پبلک شروع کیا تاکہ اخرت میں والد کے سامنے ندامت سے بچ سکوں وہ روزانہ شام 6 سے 8 بجے کے درمیان دفتر آتے اور پبلک کے ایڈیٹر انور سن رائے کے کمرہ میں روزانہ کی لیڈ یا سپر لیڈ اور دیگر 3/4 اہم خبروں پر مشورہ کرتے اس موقع پر میری کوئی اہم خبر ہوتی تو انور صاحب مجھے اپنے کمرہ میں بلاکر ان کے سامنے کھڑا کردیتے انقلاب ماتری میں مالکان والا تکبر یا زعم نہ تھا وہ ایڈیٹر کے کمرہ میں بیٹھتے بھی بہت کم تھے کھڑے کھڑے سارے فیصلے کرتے جبکہ انور صاحب اپنی کرسی پر بیٹھے رہتے ماتری مجھ سے بھی خبر کے ذرائع دریافت کرتے مینے اس دوران 3 برس میں ایک بار بھی انہیں ایڈیٹر کے کسی فیصلے سے اختلاف کرتے یا مشتعل ہوتے نہیں دیکھا ان کے چہرہ پر قدرتی مسکراہٹ ان کی انفرادی شناخت تھی اور وہ اسی مسکراہٹ کی آڑ میں بڑے اور مشکل فیصلے چٹکی بجاتے کر جاتے ایک ایسا ہفتہ بھی گزرا جب مسلسل میری لیڈ چھپی تو ماتری صاحب مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ انور سن رائے سے مخاطب ہوکر بولے یار یہ لڑکا یا تو اخبار بند کروادے گا یا پھر اسے بہت آگے لے جائے گا جب ان کا مجھ پر اعتماد بحال ہوا تو ایسے میہرباں ہوے کہ اکثر اپنی نجی تقریبات یا حکام سے ملاقاتوں میں ایڈیٹر کے ساتھ مجھے بھی لیجاتے ایسی ہی ایک ملاقات میں وہ انور سن رائے کے ساتھ مجھے بھی الہی بخش سومرو کے گھر لے گئے بنگلہ کا گیٹ خود سومرو صاحب نے کھولا اور ہمیں پرتپاک انداز میں اپنے لمبے سے مہمان خانہ میں لے گئے بعد ازاں ہم خاموش بیٹھے ماتری صاحب اور سومرو مرحوم کے درمیان بے تکلف مگر تہذیب کے دائرہ میں ہوتی گفتگو سن رہے تھے اس دوران وہ دو مرتبہ گفتگو ادھوری چھوڑ کر معذرت کرتے اندرون بنگلہ چلے گئے اور پھر آکر گفتگو میں شامل ہوگئے ابھی میں یہ معمہ حل کرنے کی کوشش کرہاتھا کہ ایک خوبرو نوجواں چائے کی ٹرے دھکیلتا ہوا مہمان خانہ میں داخل ہوا جسے انور سن رائے شاید جانتے تھے وہ اسے دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوے اور بولے سر آپ نے یہ تکلف کیوں کیا مگر انور صاحب کے اس عمل پر سومرو مرحوم ناگواری سے ہاتھ کا اشارہ کرکے بولے آپ بیٹھیں سائیں بیٹے کو کرنے دیں اس نوجواں نے ہم سے پوچھ کر چینی حسب فرمائش ڈال کر چائے پیش کی 4 پلیٹوں میں کیک کا ایک ایک ٹکڑا اور تین چار بسکٹس سجاکر سب کے سامنے رکھے اور پھر ٹرالی وہیں چھوڑ کر واپس چلا گیا چائے کے دوران بھی دونوں بے تکلف دوستوں کے درمیان پرانی یادوں کے ساتھ حالات حاضرہ پر گفت گو جاری رہی جب وقت رخصت ہوا تو گیٹ کے پاس پہنچ کر الہی بخش سومرو نے انور سن رائے کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر ماتری صاحب کی طرف اشارہ کرکے کہا سائیں انور صاحب یہ میرا بچپن کا مخلص دوست ہے اس لیے میں بیٹے کو تاکید کرکے آیا تھا کہ چائے خود لانا اور پیش بھی خود کرنا تاکہ میرے بعد بھی انہیں معلوم ہوکہ ہمارے بابا کا دوست کون ہے اور اس کی کس طرح عزت کرنا ہے سومرو صاحب ہمیشہ الوداع کرنے خود آتے اور گاڑی کے بنگلے سے نکلنے تک کھڑے رہتے بعد میں انور صاحب نے بتایا کہ ان کے ںیٹے جو چائے لائے وہ اس وقت نیشنل بینک کے صدر ہیں الہی بخش سومرو میں یہ خوبی بھی مزاج اتم موجود تھی کہ وہ آگ اور پانی سے بیک وقت تعلقات کار کامیابی سے برقرار رکھتے تھے ورنہ بیک وقت نواز شریف اور پیر پاگارہ سے تعلقات نبھانا گڈے گڑیا کا کھیل نہ تھا وہ پیر پاگارہ کے معتقد خاص اور دوست جبکہ نواز شریف ان کے لیڈر اور نواز کی وجہ سے ہی وہ ایک سے زائد بار رکن اسمبلی اور سب سے بڑے ایوان کے اسپیکر بھی منتخب ہوے اور ان کے بیٹے نیشنل بینک کے صدر بھی نواز دور میں ہی رہے دیگر کئی اور ملاقاتوں میں انہوں نے سندھ کے ہم عصر سیاستدانوں سائیں جی ایم سید، ایوب کھوڑو، ذولفقار علی بھٹو، حاکم زرداری، ممتاز بھٹو، حیدر آباد کے قاضی برادران، عبد الحفیظ پیرزادہ، غلام مصطفی جتوئی کی سیاست، معاشرت اور شادیوں وغیرہ کے بھی کئی قصے سنائے جن میں حاکم زرداری کی زیڈ اے بخاری کی بیٹی سے دوسری شادی بھی شامل ہیں وہ پھر کبھی سہی، اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے بعد اپنے بیٹوں سے جن کی عزت کروانا چاہتے تھے وہ انقلاب ماتری سومرو صاحب سے کئی برس پہلے ہی داغ مفارقت دے گئے اور شکارپور کی مٹی سے بنے شرافت و وضعداری کے مادھو سیاست کی دنیا میں نئی داستانیں رقم کرکے آج 98 برس کی عمر میں اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے یوں جوہر نیاز مندی کی سیاست کا ایک اہم باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔
اناللہ واناالیہ راجعون