کراچی (آغاخالد)جمعیت طلبہ اسلام 1970/80 کی دہائی کی بڑی طلبہ تنظیموں میں شمار ہوتی تھی اس کی مرکزی قیادت خصوصا جاوید پراچہ اور ان کے چند ساتھیوں سے جمعیت علماء اسلام کے قائد مفتی محمود کو کچھ شکایات پیدا ہوئیں تو انہوں نے غیر اعلانیہ طور پر جمعیت طلبہ کی قیادت پر پابندیاں لگا کر عملا اسے غیر فعال کردیا جس سے جمعیت میں نئی سوچ کی نرسریاں بند ہوگئیں یہی وجہ ہے کہ فکر نو کی قیادت پیدا نہیں ہورہی اور آج یہ جماعت بری طرح رہنمائی کے فقدان کا شکار ہے ون مین شو ہے اور پوری دینی جماعت جو دارالعلوم دیوبند کے عظیم نظریہ کی امین تھی آج صرف ایک شخص مولانا فضل الرحمان کے گرد گھوم رہی ہے اور ان کے بعد تو گھپ اندھیرا ہی ہے کہاں مولانا عبد العزیز دہلوی، شیخ الہند مولانا محمود الحسن، شاہ ولی اللہ، علامہ قاسم نانوتوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد جیسی گونا گوں شخصیت جن کے سامنے علم و حکمت تصنیف و تالیف نظم و نثر مؤلف و مصنف دوزانو رہتے، بہشتی زیور جیسی لازوال کتاب کے مصنف مولانا اشرف علی تھانوی، اور تحریک ریشمی رومال کے ہیرو مولانا عبید اللہ سندھی اور ایسے ہی اس پائے کے جید علماء فضلاء کی ایک موتیوں میں پروئی ہوئی لڑی اور آگے قیادت کا یہ کال۔۔۔اللہ اکبر، در اصل میرا خاندانی پس منظر کٹر مذہبی تھا مگر میری اپنی سوچ ان کے برعکس تھی والدین مجھے حافظ قرآن اور ملا بنانا چاہتے تھے جبکہ میں اپنے دیگر بہن بھائیوں کی طرح اسکول جانا چاہتا تھا علی الصبح بچے اسکول یونی فارم میں بستے لٹکائے جاتے مجھے معصوم فرشتے لگتے اور فرشتوں کی اس صف کا میں بھی راہی بننا چاہتا تھا، گھر والوں کے دبائو پر قرآن حفظ کرلیا اور صرف نہو تک دینی تعلیم بھی حاصل کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ گلستاں بوستان مجھے زبانی یاد تھیں مگر آگے مزید پڑھنے سے انکار کرکے گھر سے ناراض ہوکر چچا کے پاس نواب شاہ چلا گیا، بہر صورت میرا اس وقت مدعا یہ موضوع نہیں برسبیل تذکرہ یہ دکھ قلم کی نوک پر آگیا، مدعا ہے 1975/76 میں جمعیت طلبہ اسلام کی ایک تربیتی نشست لاہور میں مولانا احمد علی لاہوری کی مسجد و مدرسہ میں رکھی گئی جس کا میں سرگرم رکن تھا مولانا لاہوری وہ ولی کامل تھے جن کے متعلق کہا جاتاہے ایک روز نماز فجر کے بعد عام نمازیوں کو درس قرآن دے رہے تھے کہ دور بیٹھا ایک مجذوب اپنی شہادت کی انگلی کو انگوٹھے سے ملاکر ایک دائرہ بناکے آنکھ پر رکھتا اور کسی ایک نمازی کو اس دائرے میں فوکس کرکے دیکھتا اور پھر ہنسنے لگتا مولانا دوران درس اسے نوٹ کرہے تھے اور چونکہ وہ خود بھی وقت کے کتب تھے اس دیوانے کی حقیقت کو جان گئے اس لیے درس ختم کرتے ہی اس کے پاس گئے اور اس کے سامنے دوزانو بیٹھ کر بڑے ادب سے بولے حضرت یہ کیا ہورہاہے کچھ ہمیں بھی دکھائیں مجذوب نے اپنی انگلی اور انگوٹھے سے بنایا دائرہ مولانا لاہوری کی آنکھ پر رکھا تو بقول ان کے کوئی نمازی گدھے تو کوئی گھوڑے کی شکل کا نظر آرہا تھا حضرت فرماتے ہیں مینے فورن اپنے آپ کو دیکھنے کی کوشش کی تو مجھے اپنی ٹانگیں ہرن کی نظر آئیں جس پر میں فورن سجدے میں گرگیا اور اللہ کا شکر ادا کیاکہ کم از کم میں حلال جانور سے تو ہوں، انہیں مولانا لاہوری کی مسجد میں 3 روزہ تربیتی نشست رکھی گئی تھی اور دو طویل نشستوں کے بعد ہمارا پہلا دن پورا ہوا تو ہمیں رات کے کھانے کے بعد چائے کی طلب ہوئی اور ہم سندھ کے نئے سندھی چائے کے نشئی لوگ بری طرح چائے کی طلب میں دیوانے ہورہے تھے حد ادب مانع تھا اس لیے میزبان علماء فضلاء سے پوچھنے کی بجائے ہم سندھ کے مختلف شہروں اور قصبوں کے 4 لڑکے اکھٹے ہوکر بعد نماز عشاء مسجد سے نکل کر سڑک پر آگئے اور اکا دکا لاہوری راہ گیروں سے چائے کے ہوٹل کا پوچھنے لگے ان دنوں کا لاہور کوئی آج کی طرح صاف ستھرا یا ترقی یافتہ نہ تھا گندی گلیاں اور غلاظت سے بھری پختہ مگر کھلی نالیاں تھیں، مولانا لاہوری کی جس علاقہ میں مسجد تھی غالبا وہ پرانا لاہور ہوگا لوگوں میں غربت اور ان کے چہروں پر افلاس کے سائے بہت نمایاں تھے ہم جس لاہوری سے چائے کا پوچھتے وہ ہمیں ہونقوں کی طرح دیکھنے لگتا کافی پیدل چل کر ہمیں ایک ضعیف باباجی ملے جنھوں نے ہمارا مدعا سنتے ہی مسکرا کر کہا، سندھو آئے یو (سندھ سے آئے ہو) ہم نے اثبات میں جواب دیا تو وہ بڑی شفقت سے ایک گلی کی طرف اشارہ کرکے بولے اس گلی میں چلے جائو سامنے ہوٹل ہے وہاں چائے مل جائے گی پتلی سی گلی میں گئے تو سامنے ایک موالی ٹائپ کا چھپر ہوٹل نظر آیا جو لکڑیوں یاکوئلے کے استعمال سے سیاہ ہوچکا تھا شاید اس وقت تک سوئی کی گیس لاہور نہیں پہنچی تھی یا اس علاقہ میں نہ تھی ہوٹل کے سامنے نالی کے اوپر ایک لکڑی کی بوسیدہ سی بینچ رکھی تھی ہوٹل کا بیرا بھی ہوٹل کی بدصورتی سے مشابہ تھا، چائے کا سن کر وہ بڑی حیرانی سے ہمیں دیکھتے ہوے بولا پروڑیں یو چاء ضرور ملے گی (مہمان ہو چائے ضرور ملے گی) اس کا مالک خود اچھل کر بیچ میں آیا اور بڑی خوشی کااظہار کرتے ہوے بینچ کی طرف اشارہ کرکے بولا بیٹھو جی چاء ہوڑیں آندی پئی یے، ہم بینچ پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے اتنے میں بیرا شیشے کے لسی والے بڑے 4 گلاس لے کر آگیا جسے دیکھ کر پہلے تو ہمیں جھٹکا لگا پھر لا ابالی عمر کے حساب سے ہنستے اور چائے پر جملے کستے رہے مگر ہوٹل والوں نے برا نہیں منایا اس وقت تک ہمارے معاشرہ میں بے ایمانی ابھی اتنی عام نہیں ہوئی تھی اس لیے چائے سے بھرے گلاسوں میں سے اصلی دودھ کی خوشبو نے ہماری طلب اور بڑھادی اور ہم نے پہلی بار یکمشت اتنی چائے پی بہت مزیدار چائے تھی اور سیر ہوکر پلٹے پھر اگلے دو روز تک روزانہ کھانے اور ناشتے کے بعد اس ہوٹل پر جاتے اور خالص دودھ میں پتی اور گڑ ملی چائے سے خوب لطف اندوز ہوتے آج بھی یاد کرکے بڑی حیرت ہوتی ہے ہم چائے سے بھرا پورا گلاس کیسے پی جاتے تھے یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی میں دوبارہ اتنی مزیدار چائے نہیں ملی جبکہ ابھی 2024 میں پچھلے دنوں لاہور جانا ہوا تو ہر گلی کوچے میں ہر ہوٹل پر چائے دستیاب دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی، لاہوریوں کی محبت اور خالص چائے کی وجہ سے لاہور کا وہ ماضی والا دورہ ہمارے لیے آج بھی یادگار ہے۔