کراچی(رپورٹ۔اسلم شاہ)کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے نئے چیف ایگزیکٹو آفیسر، مینجنگ ڈائریکٹر کی تعینات کا معمہ حل ہوگیا، کون بنے گآ CEO and MD ،اس سلسلے میں کراچی، لاہور اور پشاور کے بلدیاتی و شہری ادارے کے افسران کے تین ناموں میں حتمی نام فہرست میں سامنے آ گیا ہے، سیدذاہد عزیر(لاہورواسا)، ناصرغفورخان(پشاور واسا) اور سید صلاح الدین(کراچیKWSS IIP-PD) کے نام سیکریٹری بلدیات، چیف سیکریٹری سندھ کے ساتھ وزیر اعلی سندھ کو ارسال کیا جائے گا۔حتمی نام کا فیصلہ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کریں گے اورسندھ کابینہ سے منظوری کے بعد نئے چیف ایگز یکٹو آفیسر کم مینجنگ ڈائریکٹر کی تقرری کا حکمنامہ جاری کردیا جائے گا۔کراچی سے سید صلاح الدین پروجیکٹ ڈائریکٹر کراچی واٹر سیوریج سروسز انفرااسٹرکچر امپوریمنٹ پروجیکٹ (KWSSIIP)ہے وہ گریڈ19کے ڈی ایم جی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں ان کی 23سال سروسس کے دوران پنجاب اور سندھ کے مختلف انتظامی عہدوں پر تعینات رہے۔واسا کے مینجنگ ڈائریکٹرسید زاہد عزیز، مارچ 2011ء سے ساڑھے 11سال سے کام کرہے ہیں۔واسا کو ڈیجٹیل ٹیکس ورکنگ کے ساتھ تمام ورکنگ کمپیوٹرائز کرنے میں کامیاب ہوئے۔ان کی ریکوری 95 فیصد ماہانہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہے۔ پشاور واسا کے چیف انجینئر ناصر غفور خان بھی پانی سیوریج کے منصوبے کی نگران رہے ہیں۔مختلف اداروں میں بطور انجینئر اپنے فرائض ادا کئے۔ پہلی بار وہ خیبر پختون خوا سے باہر کراچی میں سی ای او، مینجنگ ڈائریکٹر کے انتخاب میں منتخب ہوئے ہیں۔
کراچی سمیت ملک اور بیرون ملک سے 93 حاضر و ریٹائرڈ افسران نے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے عہدے پر تعیناتی کی درخواستیں جمع کرائی تھیں،جن میں سابق مینجنگ ڈائریکٹر اسد اللہ خان، قادر بلوچ، شکیل قریشی، ایوب شیخ، سلیم صدیقی، امیتاز مگسی، حسن اعجاز کاظمی،عالمی مالیاتی اداروں میں کام کرنے اور ملٹی نیشنلز کمپینوں کے کئی چیف ایگزیکٹیوز سمیت دیگر افسران کی درخواستوں کو مسترد کردیا گیا ہے۔مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ کنسلٹنٹ کمپنی سعادت اینڈ حیدر کی تاخیر کے باعث اس کی شفافیت اور جانبداری پر کئی سوال کھڑے ہو گئے ہیں،کیونکہ من پسند، منظور نظر کو بلوانے کے لیئے کئی درخواست گزاروں کو انٹرویو یا بات چیت کے لئے بلوایا تک نہیں گیا۔بعض اعلی تعلیم یافتہ امیدواروں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔کئی درجن ملکی اور غیر ملکی درخواست گذاروں کو نظر انداز کرنے اور ان سے رابط نہ کرنے کی تصدیق ہو گئی ہے۔اس حوالے سے نہ درخواستوں کی تصدیق کی گئی،نہ ڈگریوں کی جانچ پڑتال ہوئی اور نہ ہی تحریری طور پر کسی کے نام کی تصدیق ہوئی ہے۔بلوانے والے درخواست گزاروں کو زبانی طور فون، واٹس اسپ، اسکائی اپ کے ذریعہ صرف معلومات حاصل کرنے اور کئی درخواست گزاروں سے کئی بار رابطہ کرنے کی تصدیق ہو گئی ہے۔کنسلٹنٹ کمپنی کو سی ای او کم مینجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ آپریشن، فنانس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ہیومن ریسورسس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی تقرری کا ہدف پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔عالمی مالیاتی اداروں میں کام کرنے والے پی ایچ ڈی، ایم ایس سمیت دیگر عالمی سطح پر ڈگری یافتہ سے رابطہ نہ کرنے،نظرانداز کرنے کے ساتھ بعض منظور نظر درخواست گزار کو ایک سے زائد بار طلب کرنے پر چہ میگوئیاں اور افواہوں کی تیزی سے گردش سے شفافیت پر عالمی مالیاتی اداروں نے سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔اس بارے میں عالمی مالیاتی اداروں کے ریجنل ہیڈ متحدہ امارات سے تمام کاموں کی نگرانی کرنے والے حکام نے ایک سے زائد واٹر بورڈ کے افسران کی درخواستیں پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگر واٹر بورڈ کے افسران درست میں کام کر رہے ہوتے تو اداروں کی حالت ابتر کیوں تھی۔انہوں نے اس بارے میں وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور سندھ حکومت کے افسران کو ایک ای میل کے ذریعے اپنے اعتراضات سے آگاہ کیا تھا۔عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایت کی روشنی میں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں اس کا ڈھانچہ، قانون اور دیگر ترامیم کے ساتھ پانچ عہدوں پر قابل افراد کو میرٹ پر بھرتی کرنا شامل ہیں۔اسی طرح ان تقرری کا سپریم کورٹ،سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی گذ شتہ 8 ماہ کی مدت 12جون 2022ء کو ختم ہوچکا ہے۔کنسلٹنٹ کمپنی سعادت حیدر اینڈ کمپنی پانچ عہدوں پر پانچ پانچ ناموں کی فہرست جاری نہ کرسکی۔کمپنی کو پانچ ناموں کی فہرست فراہم کرنا تھی جو اب تین ناموں کی حتمی فہرست جاری کردی گئی ہے۔28جون کے بورڈ اجلاس میں ان تین شخصیات کا انٹرویو لیا گیا ہے۔ ان کے ناموں کی فہرست مرتب کر کے اسے سندھ حکومت کو ارسال کیا جارہا ہے۔
امید ہے کہ آئندہ چند روز میں وزیر اعلی سندھ کو پیش کردیا جائے گا۔علاوہ ازیں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے سیکریٹری بورڈ سید صلاح الدین کا گورنمنٹ نے اب تک حکمنامہ جاری نہیں کیا گیا۔تاہم انہوں نے کسی کے دباؤ میں یا سسٹم کا حصہ بننے پر گریڈ 20 کے کئی افسران کے بجائے گریڈ 19 کے آفیسر رفیق قریشی ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر فنانس کو قائم مقام مینجنگ ڈائریکٹرز تعینات کرنے کا حکمنامہ خط نمبر /B-1(1)/103(No.Secy/KWS&B-BOARD،بتاریخ 8جولائی 2022ء کو جاری کیا گیا۔رفیق قریشی کا ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر کی تقرری کا غیر قانونی حکم نامے کے معاملے کو پہلے ہی سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے جس کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ڈیموکریٹک لیبر فرنٹ کے سینئر رہنما سہیل میمن نے سیکریٹری بورڈ کی جانب سے نان انجینئر کو وہ بھی گریڈ 19 کے آفیسر کو Stop Gop Arrangment کے طور پر او پی ایس آفیسر لگانا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی توہین ہے۔یہ کراچی شہر اور اس کے عوام کے ساتھ مذاق کے متراوف ہے۔وہ انجینئرنگ کے حوالے سے اور پانی و سیوریج کے سسٹم سے نابلد آفیسر ہیں۔اس طرح کے چاپلوس بدعنوان افسران جو پہلے ہی شہر کے فراہمی اب و نکاسی آب کو اپنے کمیشنوں کے خاطر تباہ کرچکے ہیں،ان کے ذریعے اس برسات کے موسم میں شہر کو مزید تباہ کردیں گے۔متحدہ ورکرز فرنٹ کے ارشاد خان نے بھی رفیق قریشی کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عدالت میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پرکراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے گریڈ 20 کے سینئر ترین آفیسر محترمہ فریدہ سلیم کا تقرری کر گئی تھی۔وہ 19جون 2022ء کو ملازمت سے ریٹائرڈ ہوچکی ہیں،تاہم چیف سیکریٹری سندھ سہیل احمد راجپوت اور سیکریٹری بلدیات سندھ نجم احمد شاہ رفیق قریشی کے نام کی سفارشات مسترد کرچکے ہیں۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے سب سے اہم مینجنگ ڈائریکٹر کا عہدہ عیدالاضحی سے ایک روز قبل اچانک سیکریٹری بورڈ نے اپنے دستخط سے حکمنامہ جاری کردیا ہے جبکہ سندھ حکومت کا ایک گروپ واٹر بورڈ میں سسٹم(لوٹ مار،کک بیک و کمیشن سسٹم) کا تحفظ چاہتا ہے وہ سینئر ترین آفیسر ایوب شیخ سے خائف تھے کہ اگر وہ آ گئے تو واٹر بورڈ میں چلنے والا دو نمبر سسٹم کہیں بریک نہ ہو جائے اور سندھ کی دیگر اداروں کی طرح واٹر بورڈ کا بھی خفیہ قوت کے ذریعہ موجودہ سسٹم چلتا رہے مثال کے طور پر ہائیڈرنٹس،سب سوائل واٹر، غیر قانونی اور نئے واٹر کنکشن، میٹر ڈویژن،انجینئرئنگ، فنانس، ٹیکس ریونیو، پلاننگ سمیت دیگر ڈپارٹمنٹ سے اربوں روپے رشوت کمیشن، کک بیک کی وصولی کا ایک نظام پراسرار انداز سے چل رہا ہے۔مبینہ طور پر صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ(جو واٹر بورڈ سسٹم کے مرکزی کردار ہیں)اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے ایوب شیخ پر بھی دباؤ ڈال رہے تھے اور یقین دہانی ہونے اور بعض سیاسی قوتوں کی گارنٹی دینے ہر بھی وہ نگران مینجنگ ڈائریکٹر کی تقرری پر راضی نہ ہوئے۔ادی فریال تالپور(جو ڈی فیکٹیو وزیر اعلی ہیں)بھی کسی گارنٹی کے بغیر تقرری پر تیار نہ تھیں۔یار رہے کہ سپریم کورٹ نے سابق مینجنگ ڈائریکٹر اسد اللہ خان کی اپیل پر فیصلے دیتے ہوئے عارضی طور پر تقرری کرنے سے روک دیا تھا اور 60 روز میں نئے چیف ایگزیکٹو آفیسر کی تقرری تک ادارے میں سینئر ترین افسر کو مینجنگ ڈائریکٹر تعینات کرنے کا حکم جاری کردیا ہے اس آفیسر کو صرف روزانہ کے امور اور معاملات دیکھنے کا اختیار ہوگا۔اسے ادارے کو پرائیویٹائز کرنے کاپہلا قدم قراردیا جارہا ہے۔