کوئثہ (رپورٹ محمد کاظم: بی بی سی اردو ڈاٹ کام)فرض کریں کہ آپ کا بچہ ایک ایسی پیدائشی بیماری میں مبتلا ہو جائے جو اندازاً 35 ہزار میں سے صرف ایک بچے کو متاثر کرتی ہو۔صدر موسی خیل گذشتہ کافی عرصے سے اس پریشانی سے بخوبی واقف رہے ہیں مگر بدھ کے روز بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کے رہائشی کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی جب ان کی بیٹی روزینہ کی ’پانچ کلو گرام وزنی‘ رسولی نکالنے کی سرجری کامیاب ہوئی۔یہ وہ لمحہ تھا جب اس خاندان کو ایک اذیت ناک صورتحال سے نجات ملی تھی۔’سیکرو کوکیجیل ٹیراٹوما‘ عام طور پر خواتین کے حاملہ ہونے کے دوران بچے کی ٹیل بون پر بننے والا ’بینائن ٹیومر‘ ہے۔بعض کیسز میں اس سے ڈیلیوری کے دوران بچوں کی اموات بھی ہو سکتی ہیں اور اس کا واحد علاج ڈیلیوری کے بعد سرجری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔کوئٹہ کے چلڈرن ہسپتال میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صدر موسی خیل کا کہنا تھا ’میں کتنا خوش ہوں، اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ اگر پورا کوئٹہ شہر میرے نام کیا جاتا تو بھی مجھے اتنی خوشی نہیں ہوگی جتنی کہ آج میں اپنی بچی کے جسم سے بڑی رسولی کے الگ ہو جانے پر خوش ہوں۔‘روزینہ کی عمر تین برس ہے۔ ان کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ پیدائش کے کچھ عرصے بعد ان کے جسم کے نچلے حصے پر رسولی کی نشاندہی کی گئی۔ بچی کے قد میں اضافے کے ساتھ ساتھ رسولی بھی بڑھتی گئی۔’ہم بچی کو مقامی ڈاکٹروں کے پاس لے گئے لیکن اس کا علاج نہیں ہو سکا۔ رسولی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہماری پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔‘صدر موسی خیل اپنی بیٹی کو پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی علاج کے لیے لے کر گئے لیکن ان کے پاس آپریشن کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے۔روزینہ کے والد کے مطابق اس بڑی رسولی کی وجہ سے بچی ’عملی طور پر مفلوج ہو گئی تھی۔‘وہ یاد کرتے ہیں کہ ’جب ہم ملتان کے ایک ہسپتال میں گئے تو انھوں نے کہا پہلے ایک ٹیسٹ کا 70 ہزار روپے جمع کراؤ۔ اس کے بعد دوسرے ٹیسٹ کے لیے 40 ہزار روپے مزید جمع کرانے پڑیں گے۔۔۔ میرے پاس اس وقت پیسے نہیں تھے اس لیے میں بچی کو واپس گھر لے آیا۔‘ایک موقع پر صدر موسی خیل نے جو رقم اپنی بچی کے علاج کے لیے جمع کی تھی اس سے انھیں اپنی بیوی کے پتے کا آپریشن کرانا پڑا۔اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم مایوس ہو چکے تھے۔ میں اور میری بیوی سوچتے تھے کہ اگر بچی کا علاج نہ ہوا تو یہ رسولی کے ساتھ زندگی کیسے گزارے گی؟‘’پانچ کلو گرام وزنی ٹیومرصدر موسیٰ خیل نے بتایا کہ وقت کے ساتھ ٹیومر اس قدر بڑا ہو گیا تھا کہ بچی کمر کے بل سیدھی نہیں سو سکتی تھی۔’بچی کے لیے چلنا پھرنا مشکل ہو گیا۔ پیشاب کرنے اور پھر صفائی میں بچی سمیت ہم سب جس اذیت سے گزرتے تھے وہ میں بتا نہیں سکتا۔‘بچی کی تکلیف اور بے چینی دیکھ کر ایک مقامی پیرا میڈک اکبر خان اور سماجی کارکن مراد خان نے بچی کی ویڈیوز اور تصاویر کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا تاکہ انھیں دیکھ کر کوئی ان کی مدد کر سکے۔صدر موسیٰ خیل بتاتے ہیں کہ بچی کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر بہت سارے مخیر حضرات نے پیسے بھیجے۔’اتنے پیسے جمع ہو گئے کہ ہم بچی کو اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ یا پنجاب لے کر جا سکتے تھے۔ پھر محکمہ صحت کے حکام نے ان سے رابطہ کر کے کہا کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور وزیر صحت نے ہدایت کی ہے کہ بچی کا سرکاری خرچ پر علاج کیا جائے۔‘روزینہ اور ان کے والدین کو ایمبولینس پر موسٰی خیل سے چلڈرن ہسپتال کوئٹہ لایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے بچی کا ’تمام علاج مفت کیا۔‘ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ رسولی بچی کے جسم کے نچلے حصے پر تھی اور اس کا وزن پانچ کلو گرام تھا جبکہ خود بچی کا وزن سات کلو گرام ہے۔پروفیسر ڈاکٹر غلام نبی ناصر کی سربراہی میں چلڈرن ہسپتال کوئٹہ کی ایک ٹیم نے بچی کا کامیاب آپریشن کر کے رسولی کو جسم سے الگ کیا۔بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں ہیڈ آف پیڈریاٹک سرجری اور چلڈرن ہسپتال کوئٹہ میں یونٹ فور کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر غلام نبی ناصر نے بتایا بچی ’سیکرو کوکیجیل ٹیراٹوما‘ سے متاثرہ تھی۔انھوں نے کہا کہ یہ رسولیاں پیدائشی ہوتی ہیں۔ اس نوعیت کی رسولی 35 ہزار بچوں میں سے ایک میں ظاہر ہوتی ہے جو نوزائیدہ بچوں میں پائی جانے والی سب سے عام رسولی ہوتی ہے۔انھوں نے کہا کہ اس بچی کی پیدائش کے وقت ہی اس کے والدین کو پتہ چلا تھا لیکن کسی نے ان کی مناسب رہنمائی نہیں کی جس کی وجہ سے یہ اتنی وزنی ہوئی کہ ننھی بچی کے لیے اسے اٹھانا مشکل ہو گیا۔انھوں نے کہا کہ یہ پیچیدہ آپریشن تھا کیونکہ بچی کی عمر اور وزن کے لحاظ سے رسولی بہت بڑی تھی۔’رسولی بڑی ہونے کی وجہ سے اینستھزیا کی ٹیم کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اینستھیزیا والوں نے مہارت کے ساتھ اس عمل کو مکمل کیا اور پھر ہماری ٹیم نے آپریشن کو کامیابی سے کر لیا جس میں ہمیں ڈھائی گھنٹے لگے۔‘انھوں نے کہا کہ ہم نے اس رسولی کو جڑ سے نکال دیا تاکہ یہ دوبارہ نہ نکلے۔موسی خیل اپنی بیٹی کو پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی علاج کے لیے لے کر گئے لیکن ان کے پاس آپریشن کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے’اگر آپریشن نہیں ہوتا تو بچی رسولی کے بوجھ تلے مر جاتی‘ڈاکٹر غلام نبی ناصر نے بتایا کہ یہ رسولی بہت بڑی ہو گئی تھی اور کسی وقت بھی خطرناک کینسر کی شکل اختیار کر سکتی تھی۔ان کا کہنا تھا تین سال میں بھی یہ رسولی اتنی بڑی ہوگئی تھی کہ بچی کو پیشاب کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی اور زمین پر لگنے اور بیٹھنے کی وجہ سے رسولی پر بہت سارے زخم بھی تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جب وزیر اعلیٰ اور وزیر صحت کی ہدایت پر بچی کو ہسپتال پہنچایا گیا تو ہمیں بتایا گیا کہ بچی کو کراچی بھیجا جائے گا لیکن ہم نے محکمہ صحت کے حکام کو بتایا کہ بچی کا علاج ہم یہاں کریں گے۔انھوں نے بتایا کہ دنیا میں یہ رسولی ہر جگہ ہوتی ہے لیکن وہاں ایک نظام ہوتا ہے لیکن یہاں کوئی مناسب نظام نہیں جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے اس بچی کو ہمارے پاس آنے میں تین سال لگ گئے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس نہیں لیکن اگر سرجری کی سہولت ہو تو یہ آپریشن آسانی سے ہوتا ہے۔’بچی کا علاج ہونے پر بہت خوش ہیں‘صدر موسیٰ خیل کا کہنا تھا کہ بچی کو یکم اکتوبر کو موسی خیل سے چلڈرن ہسپتال کوئٹہ لایا گیا۔’یہاں ہمیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ڈاکٹروں نے بدھ کو آپریشن کر کے خوفناک رسولی کو بچی کے جسم سے الگ کیا۔‘انھوں نے کہا کہ بچی تیزی کے ساتھ صحت مند ہو رہی ہے اور آج ہم نے انھیں جوس وغیرہ پلایا اور اس کے ساتھ دو تین قدم چلایا بھی ہے۔انھوں نے بتایا کہ ’میں، میری بیوی اور خاندان کے دوسرے لوگ بہت زیادہ خوش ہیں۔ ڈاکٹروں نے مجھے کامیاب آپریشن پر مبارکباد دی اور یہ کہا کہ بچی بہت جلد ہی عام بچوں کی طرح معمول کی زندگی گزارے گی اور دوسرے بچوں کی طرح کھیلے گی بھی۔‘بچی کے والد نے ڈاکٹروں، حکومت اور مخیر حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تعاون سے بچی کو حقیقی اور نئی زندگی مل گئی۔