اسلام آباد (کورٹ رپورٹر ) وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے تفصیلی فیصلے پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اضافی نوٹ تحریر کیے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف ازخود نوٹس کے تفصیلی فیصلے پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اضافی نوٹ لکھا جس میں ان کا کہنا ہے کہ اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، صدر اور وزیراعظم نے 3 اپریل کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کی۔اسپیکر،ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے صدر اور وزیراعظم کی اسمبلیاں تحلیل کرنے تک کی کارروائی عدم اعتماد ناکام کرنے کیلئے تھی۔اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ اسپیکر ،ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور صدر، وزیراعظم کی اسمبلیاں تحلیل کی کارروائی سے عوام کی نمائندگی کا حق متاثر ہوا، آرٹیکل 5 کے تحت آئین پاکستان کی خلاف ورزی پر آرٹیکل 6 کی کارروائی کا راستہ موجود ہے۔جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پارلیمنٹرین فیصلہ کریں کہ آرٹیکل 6 کی کارروائی پر عمل کرا کرمستقبل میں ایسی صورتحال کیلئے دروازہ کھلا چھوڑنا ہے یا بند کرنا ہے۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے 3 اپریل کے اجلاس کی صدارت کی جبکہ اسپیکر اسد قیصر نے 3 اپریل کو پارلیمنٹ اجلاس میں عدم حاضری کی کوئی وجوہات نہیں بتائیں، ڈپٹی اسپیکر نے وزیر قانون کی تقریر کے بعد بغیر کسی کو سنے پہلے سے تحریر کردہ رولنگ ایوان میں پڑھ دی، رولنگ کے چند سیکنڈز بعد وزیراعظم نے براہ راست خطاب میں اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل کا اضافی نوٹ میں کہنا ہے کہ اسپیکر کا بغیر ووٹنگ رولنگ دینے کا غیر آئینی عمل عدالت کی پارلیمنٹری کارروائی میں مداخلت کیلئے کافی تھا۔اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ صدر ،وزیراعظم، ڈپٹی اسپیکر اور وزیر قانون نے آئین سے فراڈ کیا،آئین کا آرٹیکل 5 آئین سے وفاداری کا کہتا ہے تاہم اسے آئین کی خلاف ورزی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل کے اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آیا ان اقدامات پر آئین کا آرٹیکل 6 لاگو ہوتا ہے؟ پارلیمنٹ اس کا فیصلہ کرے۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف ازخود نوٹس کے تفصیلی فیصلے پرجسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ کسی شخص کی خواہش پر ملک میں عام انتخابات نہیں کرائے جاسکتے،ملک میں انتخابات کب کرانے ہیں، یہ پارلیمنٹ اجتماعی فیصلہ کرے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کے اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے ملک میں جلد عام انتخابات کرانے کا مطالبہ نظریہ ضرورت کو زندہ کرنے کے مترادف ہے، عام انتخابات صرف اسمبلی مدت پوری ہونے پر ہی کرائے جاسکتے ہیں، عدالتوں کو نظریہ ضرورت سے گریز کرنا چاہیے۔اضافی نوٹ میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ماضی میں غیرجمہوری قوتوں نے نظریہ ضرورت کا غلط استعمال کیا، نظریہ ضرورت کو زندہ کرنے سے ہمیشہ جمہوریت کو نقصان ہوتا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔تفصیلی فیصلہ 86 صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے تحریر کیا۔ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف از خود نوٹس پر فیصلے کا آغاز سورة الشعراء سے کیا گیا ۔ فیصلے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان کے گھر اجلاس میں 12 ججز نے ازخودنوٹس کی سفارش کی، عدالت نے آئین مقدم رکھنے اور اس کے تحفظ کیلئے اسپیکر رولنگ پر ازخودنوٹس لیا اور ڈپٹی اسپیکر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے سپریم کورٹ متحرک ہوئی۔فیصلے کے متن کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کی تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا فیصلہ غیر آئینی ہے لہٰذا وزیر اعظم کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جاتاہے۔