اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی ):وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ مائیکر اکنامک استحکام منزل نہیں ، ایک راستہ ہے، گروپ 20 میں شمولیت کےلئے معیشت کودستاویزی بنانا ہوگا، قومی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے، آئی ایم ایف سے پروگرام طے پا گیا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر اور برآمدات میں اضافہ ہو ا ہے، افراط زر کی شرح سنگل ڈیجٹ میں آچکی ہے، مہنگائی میں کمی کے باعث پالیسی ریٹ کم ہوا ہے، وزیراعظم محمد شہباز شریف دن رات ملکی ترقی کےلئے کام کر رہے ہیں، سٹاک مارکیٹ نئی حدیں عبور کر رہی ہے، سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ معاشی استحکام کی بڑی کامیابی ہے،نجی شعبہ کو ملک کو لیڈ کرنا ہوگا، ٹیکس محصولات میں اضافہ ناگزیر ہے، ایف بی آر کی استعداد کار میں اضافہ کےلئے چارٹرڈ اکائونٹس کی خدمات حاصل کی جائیں گی، سرکاری اداروں میں اصلاحات جاری ہیں، وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی جارہی ہے، 2 وزارتوں کو ختم کیا جا رہا ہے، مختلف وزارتوں میں ایک لاکھ 50 ہزار آسامیوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو یہاں چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔وزیر خزانہ نے میکرو اکنامک استحکام زرمبادلہ، افراط زر اور آئی ایم ایف پیکج سمیت برآمدات اور حسابات جاریہ کے حوالہ سے کہا کہ معاشی اعشاریے مثبت اور درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ، برآمدات میں تنوع کا رجحان ہے ، آئی ٹی کی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 29 فیصد اضافہ ہوا ہے جو مثبت رجحان ہے، افراط زر کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ حکومت کے آغاز پر یہ شرح 38 فیصد تھی تاہم حکومت کے اقدامات کے نتیجہ میں اس میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدہ کے حوالہ سے وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ معاہدہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں مکمل ہوا، ملک کے اداروں اور انتظامی حکام کی کاوشیں بھی قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے جس پر ان کا مشکور ہوں، جاری مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران میکرو اکنامک استحکام کی صورتحال کے حوالہ سے وزیر خزانہ نے بتایا کہ اپریل میں جب آئی ایم ایف سے میٹنگ ہوئی تو میں نے آئی ایم ایف حکام کو بتایا کہ جب ہم نو ماہ کا سٹینڈ بائی ایگریمنٹ ( ایس بی اے) مکمل کریں گے تو ہم چاہتے ہیں کہ ایک بڑا اور توسیعی پروگرام کیا جائے، جولائی میں اس حوالہ سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف بورڈ نے اس کی منظوری دے دی اور پہلی قسط بھی پاکستان کو موصول ہو گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی دو وجوہات ہیں، پہلی میکرو اکنامک استحکام لانا اور دوسری ڈھانچہ جاتی اصلاحات ہیں جو معاشی استحکام کےلئے نہایت ضروری ہیں۔ وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ میکرو اکنامک استحکام کے مثبت رجحانات ایک تھیوری نہیں رہی بلکہ ہم اب اس کے نتایج دیکھ رہے ہیں، ادائیگیوں کا توازن اور زرمبادلہ کی صورتحال بہتر ہو تی ہے، یو این پاکستان بزنس کونسل کے ساتھ امریکہ میں ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بزنس کونسل کے وفد میں مختلف سیکٹرز کی نمائندگی تھی جن میں آئی ٹی، فنانشل سروسز اور انرجی سیکٹر سمیت دیگر شعبہ جات کے سرمایہ کار اور بزنس مین بھی شامل تھے ۔انہوں نے کہا کہ اپریل میں جب میں یو ایس بزنس کونسل سے ملا تووہ سوال کر رہے تھے کہ ہمارے منافع جات اور ڈیوڈنڈز ڈیڑھ دو سال سے منجمد ہیں، آپ ان کے بارے میں کیا کریں گے، سرمایہ کاروں کےلئے یہ ایک بنیادی اور اہم مسئلہ ہے۔ گزشتہ ہفتے جب ملاقات ہوئی تو پاکستان یو ایس بزنس کونسل کے حکام نے تسلیم کیا کہ معاشی استحکام کی وجہ سے اس میں بہتری ہوئی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاروں کے منافع جات وغیرہ کی مد میں مئی جون میں 2 ارب ڈالر کی بیرون ملک منتقلی ہوئی ہے۔اسی طرح کریڈٹ ریٹنگز میں بھی بتدریج بہتری ہو رہی ہے، ملکی سٹاک ایکسچینج نئی حدیں عبور کر رہی ہے اور درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی ٹو بی رابطوں میں بہتری سے آرامکو، بی وائی ڈی سمیت دیگر کمپنیوں نے ملک براہ راست سرمایہ کاری کی ہے یہ سب بھی میکرواکنامک استحکام سے ممکن ہوا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ معاشی استحکام، افراط زر میں کمی کی وجہ سے پالیسی ریٹ کم ہوا ہے، 450 بیس پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے، صنعتی شعبہ پالیسی ریٹ کی بجائے اسلامک بینکنگ میں دلچسپی لے رہا ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ شرح تبادلہ اور پالیسی ریٹ مرکزی بینک کے دائرہ کار میں آتے ہیں، اس کے حوالہ سے وزارت خزانہ توقعات کا اظہار کرسکتی ہے،وزارت خزانہ نے پی آئی بی اور ٹی بلز سمیت دیگر بڈز کو مسترد کردیا ، اس کی تین بنیادی وجوہات تھیں جن میں مالیاتی استحکام سرفہرست ہے، حکومت کو معاشی قرض میں دلچسپی نہیں ہے، جب قرض لیا جائے گا تو اپنی شرائط پر لیں گے، ہم قرض کے اخراجات کو کم کر رہے ہیں، ہمارے اخراجات میں قرض کی ادائیگی کا ایک بڑا حصہ ہے، وفاقی وزیر نے کہا کہ بڈز کو مسترد کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت چاہتی ہے کہ بینکنگ سیکٹر نجی شعبہ کو قرضوں کی فراہمی کرے جو ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میکرو اکنامک استحکام سے معاشی ترقی کی بنیاد مستحکم ہو گی اگر ہم چاہتے ہیں کہ پائیدار اور مستحکم ترقی ہو تو ہمارے میکرو اکنامک پوزیشن مستحکم ہونی ضروری ہے۔آئی ایم ایف پروگرام کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ ملک کے لئے اہم وقت ہے، اگر ہم ترقی چاہتے ہیں تو اپنی سمت کا تعین کرنا ہوگا، ہم اپنی سمت کےلئے بڑے واضح ہیں ، اس حوالہ سے اصلاحات ضروری ہیں جس کےلئے تھنک ٹینکس سے بھی مشاورت کی گئی، ہم اپنے بہترین دماغوں سے مشاورت کرتے ہیں۔ مقامی اور غیر ملکی ماہرین کی مشاورت ضروری ہے، جی ڈی پی کے مقابلہ میں ٹیکس کی شرح کے بارے میں وزیر خزانہ نے کہا کہ اس میں اضافہ کیا جائے گا۔معیشت کو برآمدی معیشت میں تبدیل کیا جائے گا، انرجی سیکٹر کی اصلاحات کےلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں ، اسی طرح حکومتی سرکاری کاروباری اداروں کی اصلاحات بھی کی جارہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اخراجات میں کمی کےلئے وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کےلئے کمیٹی کام کر رہی ہے ، 6 وزارتوں کے بارے میں فیصلہ کیا گیا ہے، ایک وزارت کو ختم کر رہے ہیں، کیڈ کی وزارت ختم کی جا رہی ہے، دو وزارتوں کو ملا کر ایک وزارت بنائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ وزارتوں اور ذیلی اداروں کا تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے، جن وزارتوں کا فیصلہ کیا گیا ہے اب ان کے بارے میں عمل درآمد پلان پر کام کیا جارہا ہے تاکہ اس کو مکمل کیا جاسکے۔ 2019 میں بھی منصوبہ بنایا گیاجو مکمل نہ ہو سکا، عملدرآمد پلان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کابینہ کی منظوری سے خالی آسامیوں کا 60 فیصد حصہ جو ڈیڑھ لاکھ بنتا ہے اس کو ختم کیا گیا ہے،اس سے اخراجات میں کمی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مرحلہ وار اقدامات کئے جا رہے ہیں، صرف اعلانات ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات کر رہے ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران 5 وزارتوں کے فیصلہ کو حتمی شکل دی جائے گی۔ 18 ویں ترمیم کے مطاق وزارتوں کو منتقل کیا جائے گا ، جو ادارےاور وزارتیں رکھی جائیں گی ان کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے گا تاکہ وہ عوام کےلئے کام کریں ۔پنشن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اقدامات کئے جا رہے ہیں ، اس حوالہ سے سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہوگی تاکہ ہم جو پیکج لائیں اس کو قانونی شکل دی جاسکے۔ٹیکس وصولیوں کے حوالہ سے وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ مالی سال میں 30 ستمبر تک 1.6 ملین گوشوارے جمع کرائے گئے جو رواں مالی سال میں دوگنا ہوچکے ہیں، اب تک 3.2 ملین گوشوارے جمع کرائے جا چکے ہیں ، گزشتہ سال اسی عرصہ میں 3 لاکھ نئے فائلر تھے جبکہ رواں سال اس وقت تک 7 لاکھ 23 ہزار نئے فائلر آچکے ہیں۔ یہ بہت اہم ، ہم کر کے دکھا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی بات کرنا آسان ہے لیکن اس پر عمل درآمد ہی اہم ہوتا ہے۔ ہم نے جو کہا ہے وہ کر کے بھی دکھایا ہے، نان فائلرز اور انڈر فائلرز کے حوالہ سے وزیر خزانہ نے کہا کہ انڈر فائلنگ کے ذریعہ 1.3 کھرب روپے کے ٹیکسز کو چھپایا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جی 20 میں شمولیت معیشت کو دستاویزی شکل دینی ہوگی، جب 9 کھرب روپے کیش مارکیٹ میں ہے جبکہ ایف بی آر کے محصولات کا ہدف 9.3 کھرب ہے، اس وقت ہماری معیشت کا حجم 700 ارب روپے سے زیادہ ہے جبکہ دستاویزات میں 325 ارب روپے ہے، اگر ہم نے جی 20 میں جانا ہے تو ڈاکومینٹیشن کی جانب بڑھنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اصلاحات سے ٹیکس محصولات میں سات کھرب روپے کا اضافہ ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ نان فائلر گاڑی، جائیداد نہیں خرید سکیں گے، میوچل فنڈ ، کرنٹ بینک اکائونٹ نہیں کھلوا سکیں گے، رقم وصولیوں اور جمع کرانے میں ان کودقت ہوگی۔ اس طرح انڈر فائلنگ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اقدامات کر رہے ہیں کہ اس رجحان کو ختم کیا جاسکے، ٹیکس وصول کرنے والے حکام کسی کو پریشان نہیں کرسکیں گے۔ یہ اعدادوشمار ملک کے پاس ہے کہ کس کا لائف سٹائل کیا ہے،ہم اس ڈیٹا کو استعمال کر کے ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھائیں گے، مینوفیکچررز اور ٹریڈرز کے حوالہ سے وزیر خزانہ نےتاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 3 لاکھ مینوفیکچررز میں سے 14 فیصد سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں، 3 لاکھ ہول سیلرز ہیں، 25 فیصد سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مینوفیکچررز اور ہول سیلرز حکومت سے تعاون کرتے ہوئے خود کو رجسٹرڈ کرائیں گے۔ ورنہ حکومت مجبور ہو کر نان رجسٹرڈ افراد کی پراپرٹی کو منسلک، یوٹیلیٹز کی بلاکنگ اور کام کی جگہ کو سیل کرنا پڑے گا، اس حوالہ سے ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جائے گا ، پرال کا سارا سسٹم استعمال کریں گے، کوشش کر رہے ہیں کہ کاروبار اور ٹیکس وصول کرنے والے اداروں کا براہ راست رابطہ کم سے کم کیا جائے، سمگلنگ کے خاتمہ کے اقدامات کے حوالہ سے سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس کا ٹیکس پر اثر 750 ارب روپے کا ہے،بڑے کراسنگ پوائنٹس پر ڈیجیٹل چیک پوسٹیں بنا رہے ہیں، درآمدکندگان اور کلیئرنگ ایجنٹس کے حوالہ سے بھی اقدامات کر رہے ہیں، تاجر و صنعتکار برادری سمیت ایف بی آر کے حوالہ سے ہمیں استعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ایف بی آر کی آڈٹ کی صلاحیت بڑھانے کےلئے دو ہزار چارٹرڈ اکائونٹس کی خدمات حاصل کر رہے ہیں تاکہ ایف بی آر کی استعداد میں اضافہ اور انڈر فائلنگ کو روک سکیں، ٹیکس کولیکٹرز کےلئے مراعات سے وصولیوں میں اضافہ کیا جائے گا، تمام فیصلے کیسز کی بنیاد پر شفافیت سے کریں گے اور غلطی کا فوری ازالہ کیا جائے گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں نئی سوچ کے تحت اس پروگرام کو آخری پروگرام بنانا ہوگا، معیشت کے ڈی این اے کو بدلنا ہوگا، معاشی استحکام کے بغیر معیشت کی ترقی نہیں ہو سکے گی، برآمدات کے فروغ پر توجہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کی سمت درآمدی سے برآمدی بنانے کےلئے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینکس سے مسابقتی اور کم شرح پر ہی قرض لیا جائے گا، پائیدار اور معاشی ترقی کےلئے مشکل فیصلوں پر عملدرآمد کیا جائےگا۔ اپنی گفتگو کے آخر میں انہوں نے کہا کہ بنیادی ضروریات کی تکمیل اور اخراجات میں کمی انتہائی اہم ہے، ہماری آبادی 2.55 فیصد کی شرح اضافہ پائیدار ترقی میں مسائل پیدا کرتی ہے،اسی طرح موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالہ سے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر افراد زر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے تو آئی ایم ایف پروگرام صرف وفاقی نہیں بلکہ ہم سب صوبائی حکومت کا بھی ہے۔صوبوں سے درخواست کی تھی کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے والی کمیٹیوں کو فعال کیا جائے تاکہ قیمتوں میں کمی پر عملدرآمد بھی کرایا جائے۔ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسز اور توانائی کی قیمتوں سمیت شرح سود کو کم کر کے کاروباری شعبہ کے مسائل کو ختم کیا جائے گا تاکہ پائیدار اقتصادی ترقی حاصل ہو۔