نیویارک۔(نمائندہ خصوصی ):وزیراعظم محمد شہباز شریف نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین میں قتل و غارت گری اور ناجائز قبضہ ہر روز ایک’’ نئی جہنم‘‘ کو جنم دیتا ہے ، غزہ کے المناک سانحہ نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، فلسطین کو فوری طور پر اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کیا جائے، تنازعات کے حل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی ،موسمیاتی تبدیلی اور اسلامو فوبیا کے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کےلئےعالمی برادری کی اجتماعی کاوشیں درکار ہیں، خطہ میں پائیدار امن کے حصول کے لئے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو واپس لینا ہو گا ، پاکستان کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گا، ’’عزم استحکام‘‘ کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پرعزم ہیں ، پاکستان افغانستان میں حالات جلد از جلد معمول پر آنے کا خواہاں ہے ، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری کے وعدوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کشمیر اور فلسطین کے تنازعات ، یوکرین کی جنگ، موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے، دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت اور قرضوں کے بوجھ سمیت متعدد علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کا احاطہ کیا۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر کا آغاز قرآنی آیات سے کیا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے
بطور وزیراعظم دوسری مرتبہ خطاب کرنا بڑے اعزاز کی بات ہے ، ایک ایسے ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے جو ہمیشہ اقوام متحدہ فیملی کا ایک سرگرم رکن رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے 1947 میں قرار دیا تھا کہ ہم اقوام متحدہ کے منشور کے ساتھ کھڑے ہیں اور دنیا کے امن اور خوشحالی کے لئے بخوشی اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے جس غیر متزلزل عزم پر پاکستان اب بھی قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمیں عالمی نظام کے لئے نہایت کٹھن چیلنجز درپیش ہیں ، ان چیلنجز میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کی جنگ، یوکرین میں ایک خطرناک تنازعہ،افریقہ اور ایشیا میں تباہ کن تنازعات، بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی کشیدگی، دہشت گردی کا دوبارہ سر اٹھانا، بڑھتی ہوئی غربت، جکڑتے ہوئے قرض اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات شامل ہیں، ہم ایک نئی سرد جنگ کی شدت محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان چیلنجوں کے تناظر میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس نے "سمٹ فار فیوچر” اجلاس بلایا، اس ہفتے کے آغاز میں "پیکٹ فار فیوچر” میں ترقی، امن و سلامتی، ٹیکنالوجی اور عالمی اسلوب حکمرانی سے متعلق 54 اقدامات کو اپنایا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کی حالت زار پر پاکستانی عوام کی جانب سے دکھ اور درد کا اظہار کرتا ہوں، مقدس سرزمین میں رونما ہونے والے سانحہ کو دیکھتے ہوئے ہمارے دل خون کے آنسو روتے ہیں،ایک ایسا المیہ جو انسانیت کے ضمیر اور اس ادارے کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بچے اپنے ٹوٹے ہوئے گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہوں تو کیا ہم بحیثیت انسان خاموش رہ سکتے ہیں ؟ کیا ہم ان ماؤں کی طرف آنکھیں بند کر سکتے ہیں جو اپنے بچوں کے بے جان جسموں کو جھولا دیتی ہیں؟ یہ صرف ایک تنازعہ نہیں ہے، یہ معصوم لوگوں کا منظم قتل ، انسانی زندگی اور وقار کی روح پر حملہ ہے، غزہ کے بچوں کے خون سے نہ صرف ظالموں کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں بلکہ ان لوگوں کے بھی جو اس ظالمانہ تنازعے کو طول دینے میں شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم ان کے لامتناہی مصائب کو نظر انداز کرتے ہیں تو ہم اپنی انسانیت کو حقیر کر دیتے ہیں، صرف مذمت کرنا کافی نہیں ہے، ہمیں اب عمل کرنا ہوگا اور اس خونریزی کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے، بے گناہ فلسطینیوں کا خون اور قربانی رائیگاں نہیں جائے گی، ہمیں دو ریاستی حل کے ذریعے پائیدار امن کے لئے کام کرنا چاہئے، ہمیں 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک قابل عمل، محفوظ، متصل اور خود مختار ریاست فلسطین کی جستجو کرنی چاہئے جس کا مستقل دارالحکومت القدس الشریف ہو اور ان مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے فلسطین کو فوری طور پر اقوام متحدہ کا مکمل رکن بھی تسلیم کیا جانا چاہئے۔ شہباز شریف نے کہا کہ چند دنوں میں لبنان پر اسرائیل کی بے دریغ بمباری سے خواتین اور چھوٹے بچوں سمیت 500 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد میں ناکامی اسرائیل کا حوصلہ بڑھاتی ہے، یہ پورے مشرق وسطیٰ کو ایک جنگ میں گھسیٹنے کا خطرہ پیدا کرتی ہے جس کے نتائج عالمی سطح پر سنگین اور تصور سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فلسطین کے عوام کی طرح جموں و کشمیر کے لوگ بھی اپنی آزادی اور حق خودارادیت کے حصول کے لئے ایک صدی سے جدوجہد کر رہے ہیں ، امن کی طرف بڑھنے کے بجائے بھارت جموں و کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کے وعدوں سے گریزاں ہے، یہ قراردادیں جموں و کشمیر کے عوام کو اپنے بنیادی حق خود ارادیت کا استعمال کرنے کے حامل استصواب رائے کا اختیار دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے بعد سے بھارت نے جموں و کشمیر کے لئے بدقسمتی سے ان کے رہنماؤں کےبقول "حتمی حل” کو مسلط کرنے کے لئے یکطرفہ غیر قانونی اقدامات شروع کر رکھے ہیں، 9 لاکھ بھارتی فوجی مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو طویل کرفیو، ماورائے عدالت قتل اور ہزاروں نوجوان کشمیریوں کے اغوا جیسے خوفناک اقدامات سے خوفزدہ کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ایک آبادکار نوآبادیاتی منصوبے کے تحت بھارت کشمیریوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کر رہا ہے اور باہر کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں آباد کر رہا ہے تاکہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے، یہ دقیانوسی حربہ تمام قابض طاقتوں نے استعمال کیا لیکن یہ ہمیشہ ناکام رہا، جموں و کشمیر میں بھی یہ ناکام ہو گا۔وزیراعظم نے کہا کہ کشمیری عوام اس غلط ہندوستانی شناخت کو مسترد کرنے میں پرعزم ہیں جو نئی دہلی ان پر مسلط کرنا چاہتا ہےاور ہر گھڑی ان پر مظالم کے پہاڑ ڈھائےجا رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی وحشیانہ جبر و استبداد کی پالیسی نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ برہان وانی کی میراث لاکھوں کشمیریوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو تحریک دیتی رہے گی، اپنی بے مثال جدوجہد کے جائز ہونے سے تحریک حاصل کر کے وہ نڈر انداز میں اپنے راستے پر کاربند ہیں، ان کی دل دہلا دینے والی کہانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہر اعداد و شمار کے پیچھے ایک انسانی زندگی چھپی ہوئی ہے، ایک خواب منتظر اور ایک امید بکھری ہوئی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ بھارت اپنی عسکری صلاحیتوں میں بڑے پیمانے پر توسیع میں مصروف عمل ہےجو درحقیقت پاکستان کے خلاف صف آرائی ہے ، اس کے جنگی نظریے، ایک اچانک حملے اور "جوہری پھیلائو کے تحت محدود جنگ” کے تصور کے حامل ہیں،ہندوستان نے بغیر سوچے سمجھے پاکستان کی ایک باہمی "سٹرٹیجک ریسٹرینٹ رجیم” کی تجاویز کا مثبت جواب نہیں دیا ، اس کی قیادت نے اکثر لائن آف کنٹرول کو عبور کرنے اور آزاد کشمیر پر” قبضہ” کرنے کی دھمکی دی ہے۔ وزیراعظم نے واضح اور دوٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان کسی بھی بھارتی جارحیت کا اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ فیصلہ کن جواب دے گا، پائیدار امن کے حصول کے لئے بھارت کو یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو واپس لینا ہو گا جو اس نے 5 اگست 2019 سے اٹھائے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر تنازعہ کے پرامن حل کے لئے بات چیت شروع کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین میں قتل و غارت گری اور ناجائز قبضہ ہر روز ایک نئی جہنم کو جنم دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تنازعات کے علاوہ 21 ویں صدی بحرانوں کا ایک سلسلہ لے کر آئی ہے جس میں ترقی کا پلٹنا اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دو سال پہلے پاکستان ہولناک سیلاب سے متاثر ہوا جس سے 30 ارب ڈالر کے نقصانات ہوئے، اب یہ واضح ہے کہ ہر موسم گرما میں درجہ حرارت میں شدت آئے گی جو نئے موسمیاتی اثرات کو ہوا دے گی، پاکستان عالمی سطح پر ایک فیصد سے بھی کم کاربن کا اخراج کرتا ہے، پھر بھی ہم نے اپنی کوئی غلطی نہ ہونے کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے، یہ عالمی انصاف کے کسی بھی حساب کتاب میں غیر منصفانہ ہے، ہمیں مسلمہ اصول کو قائم رکھنا چاہئے کہ آلودگی پھیلانے والا ادا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایس ڈی جیز اور موسمیاتی اہداف کی کامیابیوں کی حمایت کے لئے اپنے ترقی یافتہ ملک کے شراکت داروں کی طرف سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کا منتظر ہے جس میں موسمیاتی فنانس میں سالانہ 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نیا سالانہ ہدف بھی شامل ہے ۔شہباز شریف نے قرضوں اور لیکویڈیٹی کی پریشانی کےمنحوس دائرے کو "قرض کے جال” کے بجائے "موت کا جال”قرار دیتےہوئے کہا کہ اس میں پھنسے ہوئے تقریباً 100 ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ایس ڈی جیز کو حاصل کرنا ایک سراب ہے، بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچہ جسے سیکرٹری جنرل نے "اخلاقی طور پر دیوالیہ” کے طور پر بیان کیا ہے اور عالمی تجارت اور ٹیکنالوجی کے نظام کی اصلاح اور ترقی و عالمی مساوات کو فروغ دینے کے لئے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ رواں سال مارچ میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اپنے ملک کے 24 کروڑ عوام کی بھلائی اور خوشحالی ہماری توجہ کا محور رہی ہے، ہم نے مشکل لیکن ضروری فیصلے کئے ہیں جنہوں نے ہماری معیشت کو گرنے سے بچایا ہے، ہم نے میکرو اکنامک استحکام کو بحال کیا ، مالیاتی خسارے پر قابو پایا ، اپنے ذخائر کو تقویت دی جس کے نتیجے میں مہنگائی سنگل ڈیجٹ پر آ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ جنوبی و وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہم نے اپنے لوگوں کے لئے یکساں طور پر مفید نتائج کے حصول کے لئے جغرافیائی معاشی اور علاقائی رابطے کو ترجیح دی ہے، شاندار چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے دوسرے مرحلے کا کامیابی سے آغاز کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے ذریعے ہم مستحکم انفراسٹرکچر، قابل تجدید توانائی، معدنیات، پائیدار زراعت اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کو متحرک کر رہے ہیں، یہ ترقی اور جدیدیت کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ شہباز شریف نے کہا کہ دو دہائیوں سے پاکستان نے دہشت گردی کا بڑی دلیری اور کامیابی سے مقابلہ کیا ہے، پاکستان کے اندر دہشت گرد گروہوں کو شکست دی ہے، ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کی ہے ، ہمارے 80 ہزار بہادر فوجی اور عام شہری شہید ہوچکے ہیں جن میں سکول کے معصوم بچے بھی شامل ہیں اور اے پی ایس کی تلخ یادیں ابھی بھی تازہ ہیں، ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آج ہمیں ایک بار پھر خاص طور پر ٹی ٹی پی/فتنہ الخوارج اور اس کے کارندوں کی طرف سے بیرونی مالی اعانت اور سرپرستی کی حامل دہشت گردی کی نئی لہر کا سامنا ہے ، کوئی غلطی نہ کریں، ہم اپنی جامع قومی کاوش”عزم استحکام” کے ذریعے ایک بار پھر اس خطرے کو ختم کرنے کے لئے پرعزم ہیں اور ہم عالمی برادری کے ساتھ مل کر ہر قسم کی دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے اور انسداد دہشت گردی کے عالمی ڈھانچے میں اصلاحات لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں حالات جلد از جلد معمول پر آنے کا خواہاں ہے، ہم لاکھوں مصیبت زدہ افغانوں کے لئےاقوام متحدہ کی 3 ارب ڈالر کی انسانی امداد کے لئے اپیل میں شامل ہیں، اس کے ساتھ ہی ہم ان بین الاقوامی توقعات میں شراکت دار اور ان کی توثیق کرتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، اور سیاسی شمولیت کے فروغ سمیت انسانی حقوق کا احترام کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ بالخصوص افغان عبوری حکومت کو افغانستان کے اندر تمام دہشت گرد گروہوں خاص طور پر پڑوسی ممالک کے خلاف سرحد پار دہشت گردی کے ذمہ داروں کو بے اثر کرنے کے لئے موثر کارروائی کرنی چاہئے، ان میں داعش، القاعدہ سے وابستہ ٹی ٹی پی/فتنہ الخوارج ، مجید بریگیڈ اور بی ایل ے اور دیگر شامل ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایک اور پریشان کن عالمی مسئلہ اسلامو فوبیا میں اضافہ ہے جو اب قرآن پاک کی بے حرمتی، مساجد پر حملے، مسلمانوں کے بارے میں منفی دقیانوسی تصورات اور ان کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کی کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے، اسلامو فوبیا کا سب سے خطرناک مظہر ہندوستان میں ہندو بالادستی کا ایجنڈا ہے، یہ جارحانہ انداز میں 20 کروڑ مسلمانوں کو محکوم بنانے اور ہندوستان کے اسلامی ورثے کو ختم کرنے کی کوشش ہے، پاکستان اور او آئی سی ،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور ان کے خصوصی ایلچی کے ساتھ مل کر اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل پر عملدرآمد کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان یوکرین میں المناک تنازعہ کے فوری خاتمہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق اس کے پرامن حل کا خواہاں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افریقہ کے ممالک کے ساتھ یکجہتی، دوستی اور تعاون کی ایک طویل اور قابل فخر تاریخ ہے، ہم دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور علاقائی تنازعات کو حل کرنے کے لئےافریقہ میں اقوام متحدہ کے قیام امن اور امن استوار کرنے میں اپنے کردار کے ذریعے سمیت ان کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ساتھ اپنے لوگوں کے لئے یہ پیغام لے کر جانا چاہئے کہ کمزور بے آواز نہیں ، مظلوم کو امید نہیں چھوڑنی چاہئےکہ غربت پہلے سے مقدر نہیں ہے اور یہ کہ ہمارے کرہ ارض پر انصاف اور برابری کے خدائی احکام کی پاسداری کی جائے ۔ انہوں نےاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79 ویں اجلاس کے صدر کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کیلئے نیک تمنائوں کا اظہار کیا ۔ انہوں نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس کی ذمہ داری سے انجام دہی پر سفیر ڈینس فرانسس کا بھی شکریہ ادا کیا۔