نیویارک(نمائندہ خصوصی )وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاءاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ہم پارلیمان کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، سپیکر قومی اسمبلی و پنجاب اسمبلی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خطوط لکھے جس میں سوال اٹھایا گیا کہ ایک ایسی جماعت جس کا پارلیمان میں وجود ہی نہ ہو، اسے کس طرح مخصوص نشستیں دی جا سکتی ہیں، آزاد امیدواروں کو تین دن کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے، تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی جس کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تھا، سلمان اکرم راجہ نے نہایت عجیب بیان دیا ہے، معزز جج صاحبان کے بارے میں وکلاءکو ایسی گفتگو سے گریز کرنا چاہئے، جس انداز میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دی گئیں، اس میں بہت ابہام موجود ہے، مخصوص نشستوں پر آئینی و قانونی سوالات کا جواب آنا ضروری ہے۔منگل کو یہاں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ حالیہ دنوں میں پارلیمان کی بالادستی کے حوالے سے معاملات زیر بحث آئے ہیں، سپیکر قومی اسمبلی اور اسپیکر پنجاب اسمبلی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خطوط لکھے اور کہا کہ ایسی سیاسی جماعت کو کس طرح مخصوص نشستیں دی جا سکتی ہیں جس کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں، قانونی طور پر انہیں مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ رولز پہلے ہی موجود تھے، پارلیمان نے الیکشن ایکٹ 2017ءمیں ترمیم کی جس کے مطابق کوئی بھی آزاد امیدوار تین دن کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے۔ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے جمع کرائے گئے حلف ناموں کی خلاف ورزی فلور کراسنگ تصور ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے پاس چوائس موجود تھی، تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر کے غلطی کی کیونکہ سنی اتحاد کونسل کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تھا، تحریک انصاف پارلیمان میں موجود ایم ڈبلیو ایم کو بھی جوائن کر سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی اس غلطی کو کس طرح درست کیا جا سکتا ہے، آیا ان لوگوں نے جو حلف نامے جمع کروائے کیا وہ جھوٹے تھے؟ کیا پارٹی تبدیل کرنے کی گنجائش ہر کسی کو میسر رہے گی؟ جس کا دل چاہے وہ حلف نامے منسوخ کر کے پارٹی تبدیل کر سکتا ہے؟–وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ نے معزز جج صاحب کے بارے میں عجیب بیان دیا ہے، معزز جج صاحبان کے بارے میں وکلاءکو ایسی گفتگو نہیں کرنی چاہئے اور اگر ان کے بیان میں حقیقت ہے تو اس کی باقاعدہ وضاحت آنی چاہئے، یہ بڑے اچنبھے اور حیرانگی کی بات ہے اور سمجھ نہیں آ رہا کہ پی ٹی آئی کے لیڈر آن ایئر یہ بات کیسے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمان کی بالادستی کے لئے سپیکر کے کردار کو سراہتے ہیں، اس معاملے پر سپیکر کے ساتھ کھڑے ہیں کہ قانون سازی کو اوور رول کر کے فلور کراسنگ کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ سپیکر نے جو سوال اٹھایا ہے وہ قانونی و آئینی سوال ہے۔ اس کے علاوہ جسٹس یحییٰ آفریدی کے اختلافی نوٹ کے اندر بڑے اہم نکات اٹھائے گئے ہیں اور باضابطہ طور پر کہا گیا ہے کہ ایک پارٹی جو سماعت میں فریق ہی نہیں تھی، نہ ہی اس نے درخواست دے رکھی تھی، اسے کس طرح ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ بڑا اہم اور آئینی سوال ہے کہ کوئی فریق نہ ہو اور ریلیف نہ مانگا جائے اور اسے ریلیف دے دیا جائے، جس انداز سے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دی گئیں، اس میں بہت ابہام ہے، اس کا جواب آنا ضروری ہے۔