کراچی (مرزاافتخار بیگ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ”شہر اور شاعری“ کے عنوان پر ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے لیکچر کا انعقاد جوش ملیح آبادی لائبریری میں کیاگیا تقریب میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، غازی صلاح الدین،عنبرین حسیب عنبر ، فاطمہ حسن، اخلاق احمد و دیگر ادبی شخصیات نے شرکت کی، تقریب میں صدارت کے فرائض غازی صلاح الدین نے انجام دیے جبکہ معروف شاعرہ عنبرین حسیب عنبر نے ”شہر اور شاعری“ کے حوالے سے مکمل تعارف پیش کیا، اس موقع پر غازی صلاح الدین نے کہاکہ شہر کی شاعری پر کئی دیوان بن سکتے ہیں، شہر کن مراحل سے گزرتا ہے اس کے تجربات کا اظہار بھی شاعری میں ہوتا ہے، کراچی کے حالات پر ذیشان ساحل نے عمدہ شاعری کی ہے، ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے موضوع سے متعلق لیکچر میں کہاکہ جو دیہات، گاﺅں بستیوں اور قریوں میں ادب ہوتا ہے وہ زبانی ہوتا ہے جبکہ شہر میں ادب کی روایت تحریری ہوتی ہے، تحریر کا آغاز ادبی نہیں تجارتی ضرورت کے تحت شہر میں ہوا، شہر کا تصور تحریر کے بغیر نہیں کیا جاسکتا، فوک ادب میں ایک ہی طرح کی کہانیوں کو دہرایا جاتا ہے، پنجابی فوک ادب میں غیر تاریخی عنصر نظر آتا ہے، شہر کا تصور تاریخ اور جدیدیت کے بغیر نہیں ہے، یہ دو بنیادی خصوصیات دنیا کے تمام شہروں میں پائی جاتی ہیں، انہوں نے مزید بتایا کہ 1959ءمیں ایک برٹش سائنس دان اور ناولسٹ C.P.Snow نے ” "The Two Culturesپر ایک لیکچر دیا تھا جس کا عنوان ”یورپ اور امریکہ“ تھا، انہوں نے اس میں کہاکہ سائنسدانوں، آرٹسٹ اور ادیبوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہوتا، وہ تمام ایک ہی جگہ موجود ہوتے ہیں ، ساتھ کھانا کھاتے ہیں مگر ایک سائنس دان کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ ایک اچھا شعر کیا ہوتا ہے اور جو ادیب ہیں انہیں کشش ثقل کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔ ہمیں ان کے درمیان فاصلے کو کم کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہاکہ شہر ایک بڑی علامت کے طور پر بنا ہے، شاعری میں استعارے کے طور پر بھی شہر استعمال ہوا ہے، اس پر نظمیں اور غزلیں بھی لکھی گئی ہیں ۔تقریب میں نامور ادبی شخصیت آصف فرخی (مرحوم) کی 65ویں سالگرہ کا کیک بھی کاٹا گیا، ناصر عباس نیر نے کہاکہ آصف فرخی کو بھلانا بہت مشکل ہے، ان کی کمی کو پورا نہیں کیا جاسکتا، ادب کے فروغ میں ان کا اہم کردار رہا، ان کی دنیا کے ادب پر گہری نظر تھی ۔