اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی ):سٹیٹ بینک آف پاکستان کا شرح سود میں 2 فیصد کمی کا اعلان ، پالیسی ریٹ 17.5 فیصد کر دیا گیا، قبل ازیں پالیسی ریٹ 19.5 فیصد تھا۔ سٹیٹ بینک کے اعلامیہ کے مطابق سٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں 2 فیصد کی کمی کرتے ہوئے پالیسی ریٹ کو 17.5فیصد کردیا ہے جبکہ قبل ازیں پالیسی ریٹ 19.5 فیصد تھا۔سٹیٹ بینک کے مطابق 2 ماہ میں مہنگائی میں اضافےکی شرح تیزی سےکم ہوئی ہے۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تیل اور غذائی اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کا اجلاس جمعرات کو منعقد ہوا ۔اجلاس میں 200بیسز کمی کرکے پالیسی ریٹ کو 17.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ گذشتہ دو مہینوں کے دوران مہنگائی میں تیزی سے کمی ہوئی ہے۔اس ارزانی کی رفتار کسی حد تک کمیٹی کی سابقہ توقعات سے تجاوز کرگئی جس کا بنیادی سبب توانائی کی مقررہ قیمتوں میں طے شدہ اضافے پر عملدرآمد میں تاخیر اور تیل اور غذا کی عالمی قیمتوں میں سازگار تبدیلی تھی۔ کمیٹی نے ان حالات کے حوالے سے داخلی غیریقینی کو تسلیم کیا جس کی بنا پر محتاط زری پالیسی موقف کی ضرورت تھی۔ اس سلسلے میں گذشتہ سال کے دوران مہنگائی میں پائیدار کمی لانے میں سخت زری پالیسی موقف کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ایم پی سی نے اپنے گذشتہ اجلاس سے اب تک ہونے والی اہم پیش رفتوں کا ذکر کیاجن کے معاشی منظرنامے کے لیے مضمرات ہیں۔اوّل، تیل کی عالمی قیمتیں تیزی سے کم ہوئی ہیں، گو کہ وہ بدستورتغیر پذیر ہیں۔ دوئم، سرکاری زرمبادلہ رقوم کی کم آمد اور مسلسل قرضے کی واپسی کے باوجود 6ستمبر تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر تقریباً 9.5 ارب ڈالر ہیں ۔ سوئم، پچھلے ایم پی سی اجلاس کے بعد سے حکومتی تمسکات کی ثانوی مارکیٹ کی یافتیں نمایاں طور پر کم ہوئی ہیں۔چہارم، تازہ ترین پلس سرویز کے مطابق مہنگائی کی توقعات اور کاروباری اداروں کے اعتماد میں بہتری آئی ہے جبکہ صارفین کی توقعات میں کسی قدر بگاڑ آیا ہے۔آخری بات یہ ہے کہ جولائی اگست 2024ء کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولی ہدف سے کم تھی۔ان حالات نیز مہنگائی کے منظرنامے کو درپیش ممکنہ خطرات اور آج کے فیصلے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایم پی سی نے تخمینہ لگایا کہ حقیقی شرح سود ابھی تک کافی حد تک مثبت ہے اور مہنگائی کو کم کرکے 5-7 فیصد کے وسط مدتی ہدف تک لانے اور معاشی استحکام کو یقینی بنانے میں مدد دے سکتی ہے، حالیہ بلند تعدد اظہاریوں سے معاشی سرگرمی میں معتدل تیزی کی عکاسی ہوتی ہے۔ اگست میں سیمنٹ اور پٹرولیم مصنوعات (فرنس آئل کو چھوڑ کر) کی فروخت ماہانہ بنیاد پر بالترتیب 8.5 فیصد اور 6.8 فیصد بڑھ گئی۔کاروباری احساسات کے تازہ ترین سرویز سے بھی معتدل تیزی کے اس تجزیے کو تقویت ملتی ہے کیونکہ مینوفیکچرنگ فرموں نے سرویز کی گذشتہ چند لہروں کے دوران استعداد کے استعمال میں اضافہ رپورٹ کیا ہے۔ ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ شعبہ زراعت کا منظرنامہ کمزور ہوا ہے ۔ اس کمزوری کو اگست 2024ء کے آخر تک کپاس کی آمد میں حکومتی ہدف سے متوقع کمی سے منسوب کیا جاتا ہے۔دوسری جانب کمیٹی کا کہنا تھا مہنگائی کے دباؤ میں مسلسل کمی اور پالیسی ریٹ میں حالیہ کٹوتیوں کے ظاہر ہوتے ہوئے اثرات سے صنعت اور خدمات کے شعبوں میں نمو کے امکانات کو تقویت ملے گی۔چنانچہ مجموعی طور پر حقیقی جی ڈی پی کا منظرنامہ مالی سال 25ء کے لیے ایم پی سی کے 2.5-3.5 فیصد کے پچھلے تخمینے سے ہم آہنگ رہا۔جولائی 2024ء میں کارکنوں کی ترسیلات زر کی بلند آمد اور برآمدی آمدنی میں نمایاں بہتری نے درآمدات میں اضافے کے اثر کو زائل کردیا اور جاری کھاتے کے خسارے کو 0.2 ارب ڈالر تک محدود رکھنے میں مدد دی۔ کارکنوں کی ترسیلات زر کا یہ مضبوط رجحان اگست میں بھی جاری رہا۔ عالمی معاشی ماحول بھی سازگار ہوگیا جیسا کہ خام تیل کی قیمتوں میں خاصی کمی اور عالمی مالی حالات میں قدرے بہتری سے ظاہر ہوتا ہے۔ آگے چل کر ملکی معاشی بحالی کے مطابق درآمدی حجم میں اضافے کی توقع ہے ۔تاہم توقع ہے کہ ملک کے تناسب تجارت میں بہتری، جس کا بڑا سبب کم ہوتی ہوئی خام تیل کی قیمتیں ہیں جن کے نتیجے میں مالی سال 25ء میں مجموعی تجارتی خسارہ قابو میں رہے گا۔نیز یہ بھی توقع کی گئی ہے کہ برآمدی آمدنی مستحکم رہے گی کیونکہ بلند قدر اضافی کی حامل ٹیکسٹائل میں نمو چاول کی برآمدات میں متوقع کمی کی تلافی کردے گی۔ ایم پی سی کا کہنا تھا کہ کارکنوں کی مضبوط ترسیلات زر کے ہمراہ ان عوامل کی بنا پر توقع ہے کہ جاری کھاتے کا خسارہ مالی سال 25ء میں جی ڈی پی کی تخمین شدہ حدود کے اندر رہے گا۔اس محدود جاری کھاتے کے خسارے اور اس کے ہمراہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مجوزہ رقوم کی آمد سے سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مزید بڑھانے میں مدد ملے گی۔جولائی اگست مالی سال 25ء کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 20.5 فیصد بڑھ گئی۔ ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ مالی سال کے لیے محاصل کا ہدف پورا کرنے کے لیےمالی سال 25ء کے بقیہ مہینوں میں ٹیکس وصولی کی رفتار کو موجودہ شرح سے کافی زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔اس دوران گذشتہ کچھ برسوں کے دوران حاصل ہونے والی مالیاتی یکجائی نے مہنگائی کو کم کرنے اور مجموعی معاشی استحکام بحال کرنے میں زری پالیسی کی مدد کی ہے۔اس کے نتیجے میں مجموعی سرکاری قرض اور جی ڈی پی کا تناسب کافی بہتری ہوگیا ہے اور جون 2023ء کے آخر میں 75 فیصد سے گھٹ کر جون 2024ء کے آخر میں 67.2 فیصد پر آگیا ہے۔ ایم پی سی نے توقع ظاہر کی کہ مالیاتی یکجائی ان اصلاحات کے دوران جاری رہے گی جن کا مقصد ٹیکس اساس کو وسیع کرنا اور پی ایس ای کے نقصانات (خصوصاً شعبہ توانائی کے مسائل سے نمٹ کر) کو کم کرنا ہے جس سے سماجی اور ترقیاتی اخراجات کے لیے اضافی گنجائش پیدا ہوگی۔خاص طور پر نجی شعبے کے قرضوں اور اجناس کی سرگرمیوں کے قرضوں کی موسمی رجحان سے زیادہ واپسی کے سبب آخر اگست 2024ء تک زر وسیع (ایم 2) کی نمو سست ہو کر 14.6 فیصد پر آ گئی جو آخر جون میں 16.1 فیصد تھی۔ زر بنیاد کی نمو مالی سال 24ء میں کمزور رہنے کے بعد کچھ بڑھی لیکن یہ ابھی تک اپنے تاریخی رجحان سے کم ہے۔ واجبات کے لحاظ سے ایم 2 کی نمو میں ڈپازٹس نے اہم کردار ادا کیا۔ زری پالیسی کمیٹی نے زور دیا کہ حکومت کے لیے ملکی بینکاری شعبے پر انحصار میں کمی ، خالص بیرونی اثاثوں میں بہتری لانے اور نجی شعبے کو قرض دینے کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے زرمبادلہ کی مجوزہ سرکاری رقوم کی آمد کلیدی حیثیت کی حامل ہو گی۔زری پالیسی کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ مالی حالات سازگار ہونے سے نجی شعبے کے قرضوں کی حالیہ کمزور طلب میں اضافہ ہو سکتا ہے۔عمومی مہنگائی اپنے کمی کے رجحان کو برقرار رکھتے ہوئے گذشتہ ایم پی سی اجلاس کے وقت جون 2024ءکے 12.6 فیصد سے کم ہو کر اگست 2024ء میں 9.6 فیصد سال بسال کے سنگل ڈیجٹ کی سطح پر آ گئی، جبکہ قوزی مہنگائی 14.1 فیصد سے کم ہو کر 11.9 فیصد رہ گئی۔کمیٹی نے اپنے جائزہ میں کہا ہے کہ اس کمی سے محدود طلب کے اثرات کی عکاسی ہوتی ہے، جبکہ اسے اہم غذائی اجزا، عالمی اجناس کی سازگار قیمتوں اور توانائی کی سرکاری قیمتوں میں اضافے میں تاخیر سے تقویت ملی ہے۔ اس کے ساتھ زری پالیسی کمیٹی نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ قلیل مدتی مہنگائی کے منظرنامے کو کچھ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔توانائی کی سرکاری قیمتوں میں ردوبدل کے اوقات اور شدت، اجناس کی عالمی قیمتوں کی مستقبل کی سمت اور محصولات کی وصولی میں کمی کو پورا کرنے کے لیے مختلف قسم کے ٹیکس اقدامات کے بارے میں بھی بے یقینی پائی جاتی ہے۔ بحیثیت مجموعی کمیٹی کی رائے میں مالی سال 25ء کے دوران اوسط مہنگائی 11.5 تا 13.5 فیصد کی پچھلی پیش گوئی سے کم رہنے کا امکان ہے۔ تاہم اس تجزیے کا انحصار برہدف مالیاتی یکجائی کے حصول اور تخمین شدہ بیرونی رقوم کی بروقت آمد پر ہے۔