ٹوکیو ۔(مانیٹرنگ ڈیسک ):جاپان کے دیہی علاقوں میں نوجوانوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ شرح پیدائش میں کمی اور بڑے شہروں کی طرف ہجرت کے رجحان کے نتیجے میں جاپانی زراعت اب بیرون ملک سے آنے والے کارکنوں پر پہلے سے زیادہ انحصار کر رہی ہے۔جاپان کے خبر رساں ادارے این ایچ کے کے مطابق جاپان میں نرسنگ ہومز، تعمیراتی مقامات اور کارخانوں جیسی جگہوں پر کارکنوں کی شدید قلت ہے۔ ریکروٹ ورکس انسٹی ٹیوٹ نامی تجزیاتی ادارہ، جس کی مالک عملہ فراہم کرنے والی ایک بڑی جاپانی کمپنی ہے، نے پیش گوئی کی ہے کہ 2040 تک جاپان کو تقریباً 1 کروڑ 10 لاکھ کارکنوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ایک سرکاری جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ جاپان میں 2010 اور 2020 کے درمیان کاشتکاروں کی تعداد میں 360,000 سے زائد کی کمی واقع ہوئی ہے، جب کہ غیر ممالک سے آنے والے کاشتکاروں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔ تاہم، ہر کسی نے اس تبدیلی کا خیر مقدم نہیں کیا۔صرف کاشتکاری ہی ایسا شعبہ نہیں جس میں جاپان کو کارکنوں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ نرسنگ ہومز، تعمیراتی مقامات اور کارخانے، سبھی عملے کو تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ عملے کی فراہمی کی ایک جاپانی کمپنی سے منسلک ایک تجزیاتی ادارے ’ریکروٹ ورکس انسٹی ٹیوٹ‘ کی پیشن گوئی ہے کہ 2040 تک جاپان کو تقریباً 1 کروڑ 10 لاکھ کارکنوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔جاپان کو آنے والی دہائیوں میں غیر ملکی کارکنوں کو راغب کرنے کے لیے کم ہوتی ہوئی آبادی کا مقابلہ کرنے والے دوسرے ممالک سے بھی مقابلہ کرنا پڑے گا۔جاپانی حکومت ایک قلیل مدتی تکنیکی تربیتی پروگرام کو ایک نئی سکیم سے بدلنے کا ارادہ رکھتی ہے جو جاپان میں طویل قیام کا راستہ فراہم کرتی ہے، جس میں مستقل رہائش کا موقع بھی شامل ہے۔جاپانی وزیر اعظم کِشیدا فُومیو نے کہا ہے کہ ان کی حکومت جاپان کو غیر ملکی کارکنوں کے لیے مزید خوش آئند ملک بنانے کی امید رکھتی ہے کیونکہ جاپان کارکنوں کی بڑھتی ہوئی کمی سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔