پشاور۔ (نمائندہ خصوصی ):خیبر سے کراچی اور چترال سے گوادر تک قوم 6 ستمبر جمعہ کو 59 واں یوم دفاع و شہدا جذبہ حب الوطنی کے ساتھ منائے گی، تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شہری پاکستان کے ان شہدا کو خراج عقیدت پیش کریں گے جنہوں نے مادر وطن کے دفاع کےلیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ اس موقع پر فوجی اور سویلین حکام کے علاوہ شہری، بزرگ ، ماہرین تعلیم، سول سوسائٹی کے ارکان، انسانی حقوق کے کارکنان، کسان، مزدور اور میڈیا کارکنان پاکستان کی مسلح افواج کے شہداء اور ہیروز کو دلی خراج عقیدت پیش کریں گے جنہوں نے 1948، 1965، 1971 کی جنگوں، 1999 کی کارگل جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بے مثال قربانیاں دیں۔اس حوالے سے سینئر دفاعی تجزیہ کار اور سابق سیکرٹری قانون فاٹا بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئ کہا کہ 6 ستمبر 1965 وہ دن تھا جب بھارت نے تمام بین الاقوامی قوانین، کنونشنز اور معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر کسی وارننگ یا اعلان جنگ کے پاکستان پر رات کے اندھیرے میں حملہ کیا، پوری پاکستانی قوم اپنی بہادر افواج کے ساتھ مل کر بزدل دشمن کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ہوئی اور بے مثال بہادری کا مظاہرہ کیا۔بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا کہ پاک فضائیہ اور پاکستان آرٹلری نے 1965 کی جنگ میں دشمن کی کمر توڑ دی تھی. پاکستان نے 1965 کی جنگ میں تقریباً 1617 مربع میل ہندوستانی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ دشمن کی فوجوں کے حوصلے مکمل طور پر ٹوٹ چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 1965 کی جنگ میں پاکستانی کمانڈرز بھارتی فوجی افسران کی نام نہاد جنگی صلاحیتوں اور جنگی مہارتوں کے بارے میں بخوبی آگاہ تھے کیونکہ ان میں سے بیشتر بھارتی فوجی افسران ان کمانڈرز کے ساتھ دوسری جنگ عظیم میں شریک تھے اور پاکستان کے ان بہادر افسران و جوانوں نے ہماری افواج کو دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے میں مدد کی۔یوم دفاع کے موقع پر پاک فوج کے شہدا خصوصاً نشان حیدر کا اعزاز پانے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ اگر یہاں قوم کے ان بہادر سپوتوں کی جرات و بہادری کا ذکر کیا جائے تو میجر عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر) ان میں سے ایک ہیں جنہوں نے 10 ستمبر 1965 کو شہادت کو گلے لگانے سے قبل لاہور کے قریب سٹریٹجک بی آر بی کینال کا پانچ دن تک کامیابی سے دفاع کیا، اسی طرح سکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم جو ایم ایم عالم کے نام سے مشہور ہیں، نے 6 ستمبر 1965 کو دشمن کے دو جنگی ہوائی جہازوں کو مار گرایا اور تین کو نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے 7 ستمبر کو ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے مزید پانچ جنگی ہوائی جہاز تباہ کر دیئے جس کی فضائیہ کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، اس جنگ کے دوران فلائٹ لیفٹیننٹ امتیاز احمد بھٹی اور سکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی نے ہلواڑہ پر دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا اور دشمن کے کئی طیارے تباہ کر دیئے، سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی 1965 کی جنگ میں بہادری سے لڑے اور جام شہادت نوش کیا۔اسی طرح اسکواڈرن لیڈر سجاد حیدر نے اس جنگ کے دوران آپریشنز میں غیر معمولی قیادت، بے مثال ہمت اور اڑان بھرنے کی مہارت کا مظاہرہ کیا، ہمارے فوجی افسروں اور جوانوں کی بے مثال بہادری اور قربانیوں کا ورثہ 1948 کی کشمیر جنگ میں کیپٹن راجہ محمد سرور شہید (نشان حیدر) کی شہادت سے شروع ہوا جس کو 1965 کی جنگ میں میجر عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر) ، 1971 میں میجر شبیر شریف شہید (نشان حیدر)، 1999 کی کارگل جنگ کے دوران کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشان حیدر ) اور حوالدار لالک جان شہید (نشان حیدر ) نے آگے بڑھایا، کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشان حیدر) پاک فوج کے ان نامور افسروں میں سے ایک تھے جن کی کارگل جنگ کے دوران میدان جنگ میں بے مثال جرات اور بہادری کی کارکردگی کو بھارتی فوج نے تسلیم کیا۔بریگیڈیئر (ر)محمود شاہ نے کہا کہ 12 ویں ناردرن لائٹ انفنٹری (این ایل آئی) رجمنٹ کے 29 سالہ نامور نوجوان افسر کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشان حیدر ) کےلیے موت بے معنی تھی جنہوں نے 17,000 فٹ کی بلندی پر دشمن اور سخت موسم دونوں کے خلاف شیر کی طرح مقابلہ کیا۔ انہوں نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر کارگل کے قریب ٹائیگر ہلز پر گلٹری سیکٹر میں دشمن کو بھاری انسانی اور مادی نقصان پہنچایا، 5 جولائی 1999 کو بھارتی افواج نے دو بٹالین کی مدد سے ٹائیگر ہلز پر ان پوسٹوں پر حملہ کیا اور ایک پوسٹ کے کچھ حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔تمام مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود کیپٹن کرنل شیر خان نے جوابی حملے کی قیادت کی اور کھوئے ہوئے حصے پر دوبارہ قبضہ کر لیا، اپنے نام شیر کی طرح کیپٹن شیر خان نے دشمن کا پیچھا کیا اور دشمن کے علاقے میں کئی کامیاب چھاپے مارے، ایسے ہی ایک چھاپے کے دوران وہ دشمن کے کیمپ کے اندر گئے جہاں پاک دھرتی کے بہادر سپوت نے دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا، شدید معرکے کے دوران کارگل کے شیر نے سینے میں گولی کھائی اور 5 جولائی 1999 کو شہادت کو قبول کیا، وہ اپنی بہادری کی وجہ سے شیر کارگل کہلائے، دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کے تفویض کردہ مشن کی تکمیل کے ذریعے کیپٹن کرنل شیر خان کے دلیرانہ کارنامے نے بھارتی کمانڈر بریگیڈیئر ایم پی ایس باجوہ کو ان کی بے مثال جرات اور میدان جنگ میں شاندار کارکردگی سے بجا طور پر متاثر کیا ۔بعد ازاں 12ویں این ایل آئی رجمنٹ کے کیپٹن کرنل شیر خان شہید (1970-1999) اور حوالدار لالک جان شہید (1967-1999) کو پاکستان کے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا، کیپٹن کرنل شیر خان شہید خیبرپختونخوا کے پہلے فوجی افسر تھے جنہیں نشان حیدر سے نوازا گیا۔ بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا کہ پاکستانی فضائیہ نے 27 فروری 2019 ایل او سی کے اندر دو بھارتی جنگی طیاروں کو مار گرایا جس میں ایک آزاد کشمیر اور دوسرا بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں گرا۔ اس کے علاوہ ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا جو اعلیٰ ترین پیشہ ورانہ مہارت، حوصلے اور شاندار جنگی مہارت کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 27 فروری 2019 کو بالاکوٹ پر بھارتی فضائی حملے کے بعد قوم نے جس اتحاد کا مظاہرہ کیا وہ1965 کی جنگ جیسا جذبہ ہی تھا۔بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا کہ پاکستانی فضائیہ کی 27 فروری کی کامیاب کارروائی نے واضح طور پر اس بات کی شہادت دی کہ ہماری مسلح افواج دشمن کی جانب سے کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں اسے منہ توڑ جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکہ ترنم نور جہاں کے قومی نغموں نے 1965 کی جنگ میں قوم میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے مادر وطن کے دفاع کےلیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا قدرتی آفات پاکستان کی افواج نے بے مثال قربانیاں دیں۔ بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا کہ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی متحرک قیادت میں ہمارے آباؤ اجداد کی بہت سی قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا، ہم سب کو محنت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے دنیا کے عظیم ترین ممالک میں سے ایک بنایا جا سکے۔