کراچی (آغاخالد)”یہ تھا میرا کراچی” پھر کسی کی نظر بد لگ گئی،1980 کی دہائی کا ذکر ہے سابق ممبر سندھ اسمبلی شہید زہیر اکرم ندیم کے کسی عزیز کی پی آئی بی کالونی میں شادی تھی وہ نئے نئے سیاست میں آئے تھے اور غالبا کونسلر منتخب ہوچکے تھے یا اس کی تیاری کرہے تھے ان کی زندگی کا پہلا انٹرویو مینے عبدالحی مرحوم کے رسالے ہفتہ روزہ جمہور کے لیے کیا تھا اس لیے میرے ان سے برادرانہ تعلقات بن چکے تھے ان کے اصرار پر میں شادی میں شریک ہوا تو اس شادی میں شریک مہمانوں کا مشترکہ موضوع ایک نامعلوم لاش تھی جو تین ہٹی پل کے نیچے سے ملی تھی ہر شخص فکر مند تھا کہ کراچی کے حالات خراب ہورہے ہیں اور یہ اب پر امن شہر نہیں رہا لاش کس کی تھی 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود اس کی شناخت پولیس کے لیے مسلہ بنی ہوئی تھی اور قاتل کاسراغ نہ لگنا ہر شریک شادی کی تشویش میں اضافہ کا باعث بن رہاتھا جو لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ تقریب میں شریک تھے انہیں فکر تھی جلدی گھر پہنچا جائے، یقینا ہماری نئی نسل اسے افسانہ یا اختراع جانے گی لیکن 80 کی دہائی کے کراچی کے جو شہری لاکھوں نہیں تو ہزاروں میں ابھی جیوت ہیں وہ گواہی دیں گے کہ کراچی ایسا ہی پر امن شہر تھا شب 11 بجے عوامی ٹریفک بند ہوجاتا تھا اور پھر علی الصبح 5 بجے زندگی دوڑنے لگتی تھی صدر، لیاقت آباد ڈاک خانہ اور کھارادر کے علاوہ کراچی کی سڑکوں پر شب 12 کے بعد ہو کا عالم ہوتا تھا صدر میں بھی صرف گھڑیالی بلڈنگ کے نیچے ایک ہوٹل جو شہر کے مشہور تاجر کا تھا کھلا رہتا تھا یا شاید نیو کراچی سندھی ہوٹل جس پر کراچی ختم ہوجاتا تھا اور لیاری میں ایک آدھ ہوٹل کھلا رہتا تھا انہی دنوں کورنگی کے ایک قصائی نے صدر ایمپریس مارکیٹ کے سامنے اپنی بیوی کو چھریاں مارکر قتل کیا تھا وہ بے چاری اپنی بہن کے ساتھ سودا سلف خریدنے آئی تھی شوہر سے پہلے ہی ناراضگی چل رہی تھی اور وہ میکے میں رہ رہی تھی شوہر اس کا پیچھا کرتا ہوا آیا اور ایمپریس مارکیٹ کے فٹ پاتھ سے ہی اس نے چھری خریدی اور باہر انتظار کرنے لگا وہ بدقسمت اپنے بچوں کے لیے راشن خرید کر جونہی باہر نکلی تو قصائی بھائی نے اس پر چھریوں کے وار کرکے اسے گھائل کردیا اس وحشیانہ کاروائی کے بعد وہ چھری ہوا میں لہراتا اور مغلظات بکتا فرار ہوگیا جسے بعد ازاں پولیس نے گرفتار کرلیا مگر خاتون نے اسپتال جاتے ہوے دم توڑ دیا تھا یہ قصہ بھی عرصہ دراز تک لوگوں کی زبان زد عام رہا اور لوگ اس واقعہ کے حوالے سے کراچی میں امن کی تباہی اور پولیس کی ناکامی کا رونا روتے رہتے تھے اس واقعہ کو مینے ان دنو اخبار جہاں کے لیے لکھا مگر ایک سب ایڈیٹر انور علی کی وجہ سے وہ چھپ نہ سکا، ہوا کچھ یوں کہ میں ماہنامہ صورت رسالہ میں سید وجاہت علی کے ساتھ کام کرہاتھا وہ میرے استاد بھی تھے اور محسن بھی مگر ان کی کچھ لا ابالی عادات کی وجہ سے اکثر لوگ ان سے الرجک یا خوف زدہ رہتے تھے یہ وہ دن تھے جب جنرل ضیاء الحق کے مارشلا میں اخبارات پر سخت سنسر شپ لگی ہوئی تھی اور اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے مجھے ہی صورت کو سندھ انفار میشن سے پاس کروانا ہوتا تھا جبکہ وہاں دو ڈائرکٹرز کا راج تھا ایک غنوی صاحب اور دوسرے اے کیو قادری دونوں کے مزاج یکسر مختلف تھے غنوی روائتی بیورو کریٹ اور اکھڑ تھے جبکہ اے کیو قادری دھیمے مزاج کے بہت ہی با اخلاق اور ہمدرد قسم کے افسر تھے سینسر شپ ان دونوں کے گرد گھومتی رہتی تھی ایک سے کوئی غلطی ہوجاتی اور کوئی ایک آدھ قابل اعتراض جملہ چلاجاتا تو وہ ڈائرکٹر زیر عتاب آجاتے اور دوسرے کو چارج مل جاتا پھر دوسرے سے ناراضگی کی صورت میں پہلے کو چارج مل جاتا جب بھی قادری صاحب کے پاس جانا ہوتا وہ مجھے ایڈیٹر کے حوالے سے کہتے ابے بدبخت کس لاابالی بندے کے ساتھ ہو اپنی زندگی خراب کرہے ہو کسی اچھے ادارے میں جاکر کام کرو، ایک روز تنگ آکر مینے کہا سر آپ کروادیں کسی اچھے ادارے میں یہاں بغیر سفارش کے ہم غریبوں کو کون رکھتاہے وہ ہمیشہ سر جھکاکر دوران گفتگو بھی لکھتے لکھاتے یا پڑھتے رہتے انہوں نے سر اٹھاکر مجھے گھورتے ہوے چشمہ اتارا اور بولے ،اچھا تم کل دوپہر کو آجائو کھانے کے وقفہ میں تمہیں جنگ لے چلوں گا میں خوشی سے نہاں ہوکر نکلا اور اگلے روز ٹھیک 1 بجے ان کے دفتر پہنچ گیا انہوں نے مجھے دیکھا تو فورن سامنے دیوار پر لگی گھڑی پر نظر ڈالی اور اپنا سامان سمیٹتے ہوے بولے اب تم نوکری کے لیے سنجیدہ ہوگئے ہو اس لیے لے چلتا ہوں انہوں نے بات جاری رکھتے ہوے کہا حالانکہ میں سفارش کاقائل نہیں اور میں ان سے کہونگا تمھارا ٹیسٹ لیں اگر جنگ کے معیار پر پورے اترو تو رکھ لیں پھر ان کی نصیحتوں کے ساتھ ہم جنگ کے دفتر پہنچ گئے جہاں آج کل والی سختی نہ تھی ہم سیدھے پہلی منزل پر گئے اور ہال میں داخل ہوے تو ہارڈ بورڈ کے چھوٹے چھوٹے کیبن بنے ہوے تھے جس میں سے ایک میں اشتیاق اظہر مرحوم بھی بیٹھتے تھے جو جنگ کے انٹر نیشنل ایڈیشن کے انچارج تھے اور قادری صاحب کے دوست بھی انہوں نے قادری صاحب کا پرتپاک استقبال کیا قادری صاحب بیٹھنے کی بجائے میری طرف اشارہ کرکے بولے یہ ہیں وہ برخوردار جن کا مینے فون پر ذکر کیا تھا انہیں کہیں بھی فٹ کروادیں نوجوان ہیں لکھنا اچھا آتاہے یہ وجاہت کے ساتھ لگے ہوے ہیں مجھے ان پر ترس آتاہے اس کی صلاحیتیں ضائع ہوجائیں گی اشتیاق اظہر نے بڑی شفقت سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر پوری پیٹھ ٹٹول ڈالی اور بولے یہ جنگ میں تو نہیں چل سکے گا یہاں کا ماحول بہت بگڑا ہواہے پھر وہ قادری صاحب کاہاتھ تھام کر کمرے سے نکلتے ہوے بولے میر جاوید کے پاس چلتے ہیں اور اخبار جہاں میں اسے ملازمت آسانی سے مل جائے گی اور نئے بندے کے لیے وہاں کا ماحول بھی بہتر ہے، سخت گیر میر جاوید کے لیے قادری صاحب کی ان حالات میں ان کے دفتر آمد ہی بڑا اعزاز تھا کیونکہ مینے اپنی آنکھوں سے یہ منظر بھی دیکھا تھا کہ میں قادری صاحب کے کمرہ میں چائے پی رہاہوں اور محمود شام جیسے پائے کے صحافی جنگ کی کاپی لیے باہر انتظار کرہے ہیں اس لیے جاوید صاحب بہت ہی فرماں بردار بنے ہوے تھے در اصل سینسر شپ کے اختیارات نے سندھ انفار میشن کے ڈائرکٹرز کو اس قدر طاقت ور بنادیا تھا کہ اس روز مجھے ملک کے سب سے بڑے اخبار جنگ کے دفتر پہنچ کر اس کا صحی اندازہ ہوا، انہوں نے اخبار جہاں کے ایڈیٹر نثار زبیری کو اپنے دفتر میں بلاکر مجھے ان سے ملواتے ہوے قادری صاحب کی طرف اشارہ کرکے بولے ان کی سفارش ہے، انہیں رکھناہے، زبیری صاحب جاوید صاحب کاموڈ پڑھ کر مجھ سے مخاطب ہوے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرلوگے مینے نفی میں سر ہلادیا اور کہاکہ میری انگریزی بہت کمزور ہے وہ جاوید صاحب کی طرف پلٹے اور خالی خالی نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگے جاوید صاحب جھلا کر بولے انہیں رکھناہے انہیں لے جائیں اور کسی اور شعبہ میں دیکھیں ایڈیٹر مجھے اپنے کمرے میں لے آئے اور ذرا چڑ کر بولے صاحب زادے آپ خود ہی بتادیں کہ آپ کیا کرسکتے ہیں ہمارے ہاں تو ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر کی ہی جگہ ہوتی ہے میری عجیب حالت تھی میری قسمت بھی کیا کمال تھی کوئی ایک لمحہ مجھے آسماں کی بلندیوں پر پہنچادیتا اور دوسرے لمحے زمیں پر پٹخ دیتا مینے ان کے مزاج کی تلخی کو محسوس کرتے ہوے کہا سرجی مجھے رپورٹنگ کے علاوہ کچھ نہیں آتا اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں کرائم کی اسٹوریاں دے سکتا ہوں وہ مزید غصہ سے بولے بھائی یہ اخبار جہاں ہے، پھر وہ مجھے نظر انداز کرکے اپنے کام میں لگ گئے اور میں ہونق بنا بیٹھا تھا مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس صورت حال سے کیسے نپٹا جائے آخر مینے زبیری صاحب کو بڑے ادب سے مخاطب کرکے کہا، سر میں جائوں، وہ قلم رکھ کر پھر میری جانب متوجہ ہوے اور کہا آپ کے ذہن میں کوئی اسٹوری ہے کرائم کی، مینے جھٹ حامی بھرلی تو وہ بے دلی سے بولے، اچھا لکھ کر لائو پھر دیکھتے ہیں، میں خوشی خوشی دفتر سے نکلا اور قصائی والی اسٹوری کے پیچھے لگ گیا، بقیہ؛ (اگلی قسط میں)