کراچی(رپورٹ : مرزا افتخار بیگ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام معروف ادیب و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تقریب کا انعقاد حسینہ معین ہال میں کیا گیا ۔تقریب میں معروف شاعرہ فاطمہ حسن، شاہد رسام، عنبرین حسیب عنبر اور حوری نورانی نے اظہارِ خیال کیا۔ معروف شاعر افتخار عارف نے ویڈیو لنک کے ذریعے تقریب کی صدارت کی جبکہ شکیل خان نے نظامت کے فرائض انجا م دئیے ۔ افتخارِ عارف نے کہا کہ میں احمد شاہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوںنے یوسفی صاحب کے لیے تقریب کا انعقاد کیا ۔ یوسفی صاحب بہت مشکل آدمی تھے ۔ ان کی شخصیت کے دو دور ہیں۔ ایک” آبِ گم” سے پہلے کا اور دوسرا” آبِ گم” کے بعد کا ۔ میں کوشش کروں گا کہ اس پر لکھوں ۔ یوسفی صاحب نہایت سلیقے سے لباس کا اہتمام کرتے تھے ۔ ان کے ادب کے سلسلے میں ایک بات ان کی زندگی میں بھی کہتا تھا کہ میں ان کو اردو ادب کے مقبول نثر نگاروں میں شامل کروں گا۔ یو سفی صاحب سب سے مختلف تھے ۔ "آبِ گم” تک ان کا سفر جدا گانہ ہے ۔ن۔ م راشد اور یوسفی صاحب کی تحریر یں ہمارے نثر نگاروں کے لیے خزانہ ہیں ۔ میں نے یوسفی صاحب سے بہت کچھ سیکھا ۔ان کا مزاح تمام مزاح نگاروں سے مختلف ہے۔ وہ دیانتدار انسان ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کے بہت پابند بھی تھے۔ یوسفی صاحب کے ہاں جانا میرے لیے زیارت سے کم نہ تھا ۔ فاطمہ حسن نے کہا کہ یوسفی صاحب جب زندہ تھے تو انور مقصود ،زہرا نگاہ اور احمد فراز ہم سب پکنک کرتے رہتے تھے ۔یوسفی صاحب کے ساتھ ہمارا خاندان جیسا تعلق تھا۔احمد شاہ نے ان کی زندگی میں اور ان کے انتقال کے بعد بھی ان کے ساتھ جڑے ہوئے رشتے کو بخوبی نبھایا ۔احمد شاہ نے جوش ملیح لائبریری کا آغاز مشتاق احمد یوسفی کی دس ہزار کتابوں سے کیا ۔ یو سفی صاحب ہم سے کبھی جدا ہوئے نہ ہوں گے کیوں کہ مشتاق احمد یوسفی کی وجہ سے ہم جڑے ہوئے ہیں ۔معروف شاعرہ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے کہا کہ مشتاق احمد یوسفی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ان میں لوگوں کو آگے بڑھانے کا جذبہ بے انتہا تھا۔ایک مرتبہ ان سے انٹرویو کا وقت لیا تو انہوں نے ایک بات کہی کہ محترمہ انٹرویو تو ان کا کیا جاتا ہے جس نے کوئی نیا کام کیا ہو۔مزاح مزاج کا نام ہے، یوسفی صاحب سے مل کر ایسا لگتا بھی تھا۔ طبیعت خراب ہونے کے باوجود بھی وہ آخری دم تک مشتاق احمد یوسفی ہی رہے۔ان کے پاس زبان پر گرفت تھی۔ مشتاق احمد یوسفی کے کردار میں مزاح نظر آتا تھا۔ وہ آنے والے لوگوں کے لیے بھی ہمیشہ تخلیق کار ہی رہیں گے۔ حوری نورانی نے کہا کہ میرا ناشر کے طور پر سفر کا آغاز یوسفی صاحب کے ساتھ ہوا مگر افسوس کے چند سال بعد ان کا انتقال ہو گیا۔” آب ِگم” جب چھپنے والی تھی تو یوسفی صاحب لندن میں مقیم تھے۔ وہ جو لکھتے تھے وہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ اپنی کتاب کے بارے میں پروف ریڈنگ سے لیکر ٹائٹل تک خود دیکھا کرتے تھے۔پہلے کتابت کا دور تھا مگر ” آبِ گم” پہلی مرتبہ کمپیوٹر پر کمپوز ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ جتنا میں نے یوسفی صاحب سے سیکھا اتنا اپنے والد سے بھی نہیں سیکھا۔ وہ غلطی برداشت نہیں کرتے تھے، پروف ریڈنگ کے مرحلے میں بہت سخت تھے۔ آج میں اگر اچھی ایڈیٹر یوں تو اس کا سہرا یوسفی صاحب کو جاتا ہے۔ تقریب میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی آرٹ اسکول کے پرنسپل شاہد رسام نے مشتاق احمد یوسفی کی یادوں پر مبنی مقالہ پڑھ کر سنایا۔