اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی )وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاءاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ تین سال میں پہلی بار مہنگائی سنگل ڈیجٹ پر آئی ہے، وفاق نے 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے بجلی صارفین کو 50 ارب روپے کی سبسڈی دی جبکہ پنجاب نے 201 یونٹ سے 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے اپنے صوبے اور وفاق کے بجلی صارفین کو 45 ارب روپے کی سبسڈی دی، کیا ہی اچھا ہوتا کہ ٹمبر مافیا اور تمباکو مافیا سے پیسے لینے والے بھی اپنے صوبے کے بجلی صارفین کو اس طرح کی سہولت دیتے۔ وہ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران ارکان قومی اسمبلی کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔رکن قومی اسمبلی زبیر خان کے سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ زیریں اور بالائی جنوبی وزیرستان میں نادرا کے پانچ سینٹرز کام کر رہے ہیں، برمل اور مکین تحصیلوں میں نادرا سینٹرز قائم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، ان دونوں تحصیلوں میں سیکورٹی مسائل ہیں، سیکرٹری داخلہ کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ دوسری تحصیلوں کی طرح جنوبی وزیرستان کی برمل اور مکین میں بھی نادرا سینٹرز قائم کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان میں مجموعی طور پر آٹھ نادرا مراکز ہوں گے۔رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالغفور حیدری کے سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آج سٹیٹ بینک نے مہنگائی کے حوالے سے نئے اعداد و شمار جاری کئے ہیں، تین سال میں پہلی بار مہنگائی سنگل ڈیجٹ 9.6 فیصد پر آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ محمد نواز شریف 2018ءمیں 4 فیصد پر مہنگائی چھوڑ کر گئے تھے، جہاں پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی گئی، وہاں مہنگائی کا سنگل ڈیجٹ پر آنا وزیراعظم شہباز شریف کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ باقاعدگی سے ایوان کی کارروائی میں شرکت کرتے ہیں، کچھ مصروفیات کے باعث آج وہ ایوان کی کارروائی میں موجود نہیں، آئندہ اجلاس میں وہ ایوان میں موجود ہوں گے۔رکن قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اسلام آباد کے لے آئوٹ پلان کو دیکھا جائے تو یہاں پلاننگ دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کو ماسٹر پلان کے مطابق اجازت دی جاتی ہے۔ جو سوسائٹیاں سی ڈی اے سے منظوری حاصل نہیں کرتیں، قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور جب یہ سوسائٹی سی ڈی اے سے اجازت حاصل کرتی ہیں تو انہیں قانون کے مطابق کام کرنے دیا جاتا ہے۔رکن قومی اسمبلی شاہد احمد کے ضمنی سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وفاق نے 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے بجلی صارفین کو 50 ارب روپے کی سبسڈی دی جبکہ پنجاب نے اپنے صوبے اور وفاق کے لئے 45 ارب روپے کی سبسڈی دی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ صوبہ پنجاب نے بجلی پر جو سبسڈی دی ہے، دوسرے صوبے بھی اس کی تقلید کرتے۔ پنجاب نے نہ صرف اپنے صوبے بلکہ وفاقی دارالحکومت کے بجلی صارفین کو اپنے فنڈز سے سبسڈی دی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ٹمبر مافیا، تمباکو مافیا سے پیسے لینے والے بھی اپنے صوبے کے صارفین کو یہ سہولت دیتے۔رکن قومی اسمبلی شرمیلہ فاروقی کے سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پی ڈبلیو ڈی سمیت جو وزارتیں ختم ہو رہی ہیں ان کے کچھ ملازمین کو رکھا جائے گا یا انہیں گولڈن ہینڈ شیک دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح ایف آئی اے کی کپیسٹی سائبر کرائم کو انوسٹی گیٹ کرنے کی نہیں ہے، اس حوالے سے نئی انوسٹی گیشن ایجنسی کی منظوری دی گئی ہے، جب تک یہ مکمل طور پر کام نہیں کرتی، ہینڈ ہولڈنگ جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیکھا جائے گا کہ کون سے ایف آئی اے کے ملازمین کو اس میں ضم کیا جائے گا، ابھی یہ ابتدائی مرحلے میں ہے، جیسے ہی اس کے پروسیجر مکمل ہوں گے، اس کے بعد اس کو دیکھا جائے گا کہ اسے کس طرح آگے لے کر چلنا ہے۔سردار نبیل گبول کے سوال پر عطاءاللہ تارڑ نے کہا کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم کے تحت کیسز ختم نہیں ہوں گے، یہ کیسز نئی سائبر کرائم ایجنسی کو منتقل ہوں گے۔ رکن قومی اسمبلی سحر کامران کے سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ نوجوانوں کو فنی تربیت دینے کے لئے حکومت نے نئے اقدامات اٹھائے ہیں۔ نیفٹیک کی تنظیم نو کی جا رہی ہے، بیرون ملک افرادی قوت کی مانگ کو دیکھتے ہوئے مقامی افرادی قوت کو تربیت دی جائے گی۔ رکن قومی اسمبلی آسیہ ناز تنولی کے سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹینتھ ایونیو کی تعمیر وقت کی ضرورت تھی، جب بھی کوئی نئی سڑک تعمیر کی جاتی ہے تو اس کا سروے کیا جاتا ہے، ٹریفک کائونٹ اور سروے مکمل ہونے کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ یہ سڑک تعمیر ہونی ہے یا نہیں۔ ہمارے پاس جب ڈیٹا آیا تو اس کے بعد اس کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا۔رکن قومی اسمبلی خورشید جونیجو کے سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اسلام آباد میں مارگلہ نیشنل پارک کے علاوہ لیک ویو پارک اور گرین ایریاز ڈویلپ کئے گئے ہیں۔ رکن قومی اسمبلی شہزادہ محمد گستاسب خان کے سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ ججز کی سیکورٹی پر 34 گاڑیاں، بیورو کریٹس کے ساتھ چھ اور وزراءکے ساتھ سیکورٹی کی چار گاڑیاں مامور ہیں، مجموعی طور پر 44 گاڑیاں اور 532 پولیس اہلکار ان شخصیات کے ساتھ سیکورٹی پر تعینات ہیں۔ رکن قومی اسمبلی عالیہ کامران، شاہدہ رحمانی اور ڈاکٹر نثار کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ہائوس اور پارلیمنٹ لاجز کی صفائی ستھرائی سی ڈی اے کی ذمہ داری ہے، اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے، سپیکر سے درخواست کریں گے کہ اس حوالے سے ایوان کی خصوصی کمیٹی تشکیل دیں، پارلیمنٹ ہائوس اور لاجز کی صفائی ستھرائی کیلئے سی ڈی اے کے لئے صرف چھ کروڑ کے فنڈ مختص کئے گئے تھے۔موجودہ سٹاف اور وسائل کے مطابق صفائی ستھرائی کا کام انجام دیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ میرے خیال میں پارلیمنٹ لاجز اور پارلیمنٹ ہائوس کی صفائی ستھرائی کی دیکھ بھال کو آئوٹ سورس کیا جائے۔ سی ڈی اے کو جتنا فنڈ ملتا ہے وہ نصف سے زیادہ ملازمین کی تنخواہوں میں چلا جاتا ہے۔ شرمیلا فاروقی اور رعنا انصر کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جینڈ بیسڈ کرائمز اور بچوں سے زیادتی ایک حقیقت ہیں، یہ دونوں معاملات انتہائی غور طلب ہیں، معزز رکن نے بہت اچھے نکات اجاگر کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف نائن پارک کے ملزمان کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، ایف نائن پارک کے واقعہ کی تحقیقات چل رہی ہیں۔جینڈ بیسڈ کرائمز اور بچوں سے زیادتی کے معاملات کے حوالے سے ایک کمیٹی قائم ہے۔ اس کمیٹی کا صوبوں سے بھی رابطہ ہے۔ اسلام آباد پولیس بھی ان کرائمز کے بارے میں پوری طرح متحرک ہے۔ معمول کی پٹرولنگ کو بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ اس بارے میں مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کے حوالے سے ہم بہت کلیئر ہیں، ایف نائن پارک کے حوالے سے بھی معاملات چل رہے ہیں۔ ظاہر جعفر اور کراچی میں خاتون کی جانب سے لوگوں کو کچل دینے کے معاملات میں عدالتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیس دائر ہو جاتا ہے، سزا بھی ہو جاتی ہے پھر کیس اپیل کی نظر ہو جاتا ہے۔ایم این اے اسد قیصر اور عمر ایوب کے سوالات کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اسد قیصر صاحب اس ہائوس کے کسٹوڈین رہے ہیں، اسلام آباد میں پولیس کی مجموعی طور پر 22 چیک پوسٹیں ہیں، ان چیک پوسٹوں پر گزشتہ دو سال میں 145 جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا گیا، امن و امان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت میں پولیس چیک پوسٹیں ختم نہیں ہو سکتیں، اگر کسی بھی چیک پوسٹ پر پولیس اہلکار بدتمیزی کرے یا مبینہ رشوت لے تو ہمیں درخواست دیں، یقین دلاتا ہوں کہ متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ چھاپوں کے لئے روانہ کی جانے والی نفری تھانے میں رجسٹر روانگی کے تحت بھیجی جاتی ہے، یہ نہیں ہوتا کہ چیک پوسٹ پر کھڑے لوگوں کو چھاپوں کے لئے بھیج دیا جائے، بڑے بڑے عہدوں پر رہنے والوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ چیک پوسٹوں کو چھاپوں کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا۔